مصنوعی ذہانت کے میدان میں تیزی سے ترقی کرنے والی کمپنی ’ڈیپ سیک‘ نے عالمی سطح پر نمایاں مقام حاصل کر لیا ہے اور وہ امریکی حریف ’چیٹ جی پی ٹی‘ کی مضبوط مدِ مقابل بن چکی ہے۔
تاہم چین کے علاقے سنکیانگ میں موجود ایغور مسلم اقلیت کے لیے، جنہیں مبینہ نسل کشی کا سامنا ہے، یہ نئی ٹیکنالوجی ایک اور ذریعہ بن گئی ہے، جس کی مدد سے ان کی ایک اعشاریہ دو کروڑ کی آبادی کو تاریخ سے مٹایا جا رہا ہے۔
راحیمہ محموت، جو 2000 میں چین سے فرار ہوئیں، نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’چینی حکومت مصنوعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے عوام کو گمراہ کر رہی ہے تاکہ ایغوروں کے وجود کو ختم کیا جا سکے۔‘
راحیمہ محموت، جنہیں آٹھ سال سے اپنے خاندان کی کوئی خبر نہیں ملی، اور جنہیں معلوم ہوا کہ ان کے بھائی کو دو سال ایک بڑے حراستی کیمپ میں قید رکھا گیا، کو اس معاملے پر سخت تشویش تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ڈیپ سیک‘ خود کو ایک ’عالمی معیار کا اے آئی اسسٹنٹ‘ قرار دیتا ہے اور اسے ایسے جوابات دینے کے لیے تیار کیا گیا تھا جو ’مددگار ہوں اور جن سے کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔‘ اسے اب تک دنیا بھر میں 30 لاکھ سے زائد مرتبہ ڈاؤن لوڈ کیا جا چکا ہے۔
تاہم، جب اس چیٹ بوٹ سے پوچھا گیا کہ ’کیا ایغور نسل کشی کا سامنا کر رہے ہیں؟‘ تو اس نے جواب دیا کہ یہ ’چین کے داخلی معاملات پر سنگین بہتان ہے‘ اور ’مکمل طور پر بے بنیاد‘ ہے۔
چیٹ بوٹ نے کہا: ’ہم کسی بھی ملک، تنظیم یا فرد کی جانب سے انسانی حقوق کے نام پر چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔‘
راحیمہ محموت کے لیے ’نام نہاد انسانی حقوق کے معاملات‘ کا مطلب تھا کہ 1997 میں اپنے آبائی شہر غولیا سے اس وقت فرار ہونا، جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے قریبی دوستوں اور پڑوسیوں کو حراست میں لیا جا رہا ہے۔
وہ بیجنگ کی ’سخت کارروائی‘ مہم سے بچنے کے لیے فرار ہو رہی تھیں، جس کے دوران سنکیانگ میں بڑھتی ہوئی علیحدگی پسند تحریک کے ردعمل میں ہزاروں گرفتاریاں اور پھانسیاں دی گئیں۔
اس کے بعد سے، امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور نیدرلینڈز نے چین پر اس خطے میں نسل کشی کا الزام عائد کیا ہے، جہاں لاکھوں ایغور، جن کی اکثریت مسلمان ہے، آباد ہیں۔
یہ الزامات اقوام متحدہ اور کئی انسانی حقوق کے گروپوں کی تحقیقات کے بعد سامنے آئے، جن میں چین پر خواتین کی جبری نس بندی، لوگوں کو حراستی کیمپوں میں قید رکھنے اور بچوں کو ان کے خاندانوں سے جدا کرنے جیسے سنگین جرائم کے شواہد پیش کیے گئے۔
2018 میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی نے رپورٹ دی کہ چین نے شمال مغربی صوبے میں ’انسدادِ انتہا پسندی مراکز‘ کے نام پر تقریباً 10 لاکھ افراد کو قید کر رکھا ہے۔
ڈاکٹر ایڈریان زینز، جو بیجنگ کی سنکیانگ پالیسیوں کے ماہر سمجھے جاتے ہیں، کا کہنا ہے کہ چین ایغوروں کو ایک نسلی گروہ کے طور پر ’ختم‘ کرنے اور ان کے آزادی کے خواب کو مٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ سے گفتگو میں کہا: ’ایغور ثقافتی اور مذہبی طور پر چین کے باقی حصے سے بالکل مختلف ہیں۔ وہ ترک نژاد ہیں، چینی نہیں اور یہی بیجنگ کے لیے مسئلہ ہے۔‘
1990 کی دہائی میں ایغوروں نے اپنے ترک ہمسایہ ممالک، کرغزستان اور قازقستان کو سوویت یونین کے زوال کے بعد ماسکو سے آزادی حاصل کرتے دیکھا۔
ڈاکٹر زینز کے مطابق، اس واقعے نے سنکیانگ میں قوم پرستی کی ایک نئی لہر کو جنم دیا اور ایغوروں نے بیجنگ سے زیادہ خودمختاری کے بارے میں بات کرنا شروع کر دی۔
انہوں نے کہا:’یہ صورت حال چینی حکام کے لیے تشویش کا باعث بنی، جس کے بعد انہوں نے ایغور معاشرے کے خلاف سخت کارروائیوں کا آغاز کر دیا۔‘
ابتدائی کریک ڈاؤن میں مساجد کی بندش، مذہبی رہنماؤں کی گرفتاری اور سنکیانگ میں ہان چینی تارکین وطن کو بڑی تعداد میں بھیجنے جیسے اقدامات شامل تھے۔
ڈاکٹر زینز کے مطابق، ان پالیسیوں نے تشدد کے ایک خطرناک سلسلے کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں آج چین پر نسل کشی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔
چین کا دعویٰ ہے کہ یہ مہم اور جاری کریک ڈاؤن دہشت گردی اور اسلامی انتہا پسندی کو روکنے کے لیے ضروری تھا۔
دوسری جانب ڈیپ سیک نے کہا کہ چین سنکیانگ میں ’سماجی ہم آہنگی‘ اور ’پائیدار ترقی‘ کے لیے پرعزم ہے۔
31 سالہ زمرتاری اَرکِن کا 2017 سے اپنے خاندان سے کوئی رابطہ نہیں ہو سکا اور دیگر کئی ایغور باشندوں کی طرح وہ بھی جانتی ہیں کہ ان کے رشتہ داروں کو بار بار گرفتار کر کے تفتیش کی جاتی ہے۔
اس لیے جب انہوں نے ڈیپ سیک کو اپنے آبائی علاقے کی تاریخ کو مسخ کرتے دیکھا، تو یہ ان کے لیے ’انتہائی تشویش‘ کی بات تھی۔ محترمہ محموت کی طرح، انہوں نے بھی کہا کہ یہ چین کی جانب سے ایغور تاریخ کو مٹانے کا ایک نیا طریقہ ہے۔
ارکن نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’اس قسم کی ٹیکنالوجی گوگل کی جگہ لے رہی ہے۔ لوگ تحقیق اور معلومات کے لیے اب ایسے ذرائع پر انحصار کر رہے ہیں۔ یہ ایک انتہائی تشویش ناک بات ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ’ڈیپ سیک‘ چینی حکومت کے زیر کنٹرول ہے اور وہ اسے ایغور قوم کو مٹانے کے ایک اور ذریعے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔‘
ڈاکٹر ولیم میتھیوز، جو چین کے تکنیکی ترقی پر تحقیق کرتے ہیں، کا کہنا ہے کہ بیجنگ کی جانب سے ’ڈیپ سیک‘ پر عائد سینسرشپ ہم سب کے لیے ’انتہائی تشویش ناک‘ ہونی چاہیے۔
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’یہ ایپ چین کی سینسرشپ پھیلانے کی صلاحیت میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔ جیسے جیسے یہ پلیٹ فارم مقبول ہوتا جا رہا ہے، یہ ہم سب کے لیے باعثِ تشویش ہونا چاہیے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’یہ براہ راست چینی ریاست کے مفادات سے جڑی ہے اور ایسے کسی بھی پلیٹ فارم میں ایک بنیادی خطرہ موجود ہوتا ہے۔ یہ ایپس نہایت طاقتور اور اثر و رسوخ رکھنے والی ہوتی ہیں اور مستقبل میں ہمارے لیے معلومات حاصل کرنے کا ذریعہ بن جائیں گی۔‘
راحیمہ محموت، جو اب لندن میں مقیم ہیں اور ایغور موسیقی کے ذریعے اپنی ثقافت کی بقا کے لیے کام کر رہی ہیں، نے کہا: ’یہ دعویٰ کہ ایغور نسل کشی کا معاملہ ’مکمل طور پر بے بنیاد‘ ہے، نہ صرف جھوٹ ہے بلکہ ان لاکھوں ایغور اور دیگر ترک نسل اقلیتوں کی توہین بھی ہے جو خوفناک مظالم کا شکار ہوئے۔‘
دی انڈپینڈنٹ نے اس حوالے سے ’ڈیپ سیک‘ سے مؤقف لینے کے لیے رابطہ کیا ہے۔
© The Independent