لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ملک شہزاد احمد خان بطور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کل آٹھ مارچ کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔
عدالت عالیہ کے 52ویں چیف جسٹس سے گورنر پنجاب بلیغ الرحمن حلف لیں گے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد امیر بھٹی دو سال آٹھ ماہ بعد آج سات مارچ کو ریٹائر ہو گئے۔ ان کے اعزاز میں الوداعی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں نامزد چیف جسٹس نے بھی شرکت کی۔
لاہور ہائی کورٹ کے ریکارڈ کے مطابق نئے چیف جسٹس ایک سال سے زائد مدت کے لیے اس عہدے پر فرائض انجام دیں گے۔
جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس ملک شہزاد احمد خان کا بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ تقرر کرنے کی منظوری کے بعد صدر مملکت عارف علوی نے بھی ان کی تعیناتی کی منظوری دے دی ہے۔
ملک کی آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے کی بڑی نشست پر وہ ایسے وقت میں فرائض کا آغاز کریں گے جب حالیہ انتخابات سے متعلق درخواستیں اور نو مئی واقعات میں ملوث ملزمان کے خلاف مقدمات بھی زیر سماعت ہیں۔
تاہم ہائی کورٹ بار کی جانب سے ان کی تقرری کا خیر مقدم کرتے ہوئے قانون کی بالادستی میں ان کے کردار کو اہم قرار دیا ہے۔
بطور جج اہم فیصلے اور چیلنجز:
صدر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اسد منظور بٹ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’بطور جج وہ بہت قابل اور بااصول شخصیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔ وہ ہمیشہ بار اور بینچ کے تعلق کو فروغ دینے پر یقین رکھتے ہیں۔‘
’ان کی تقرری سے وکلا کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور انہیں درپیش مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔ ہم امید کرتے ہیں کہ وہ رول آف لا کے ساتھ اپنی رہنمائی سے وکلا کو بھی سائلین کو انصاف کی فراہمی یقینی بنانے میں کردار ادا کرتے رہیں گے۔‘
لاہور ہائی کورٹ کے سینیئر قانون دان میاں داؤد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جسٹس ملک شہزاد احمد فوجداری اور آئینی کیسوں سے متعلق بہترین جج کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہیں کسی بھی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر بہادری سے فیصلے کرنے والے جج کے طور پر جانا جاتا ہے۔‘
’انہوں نے 2019 میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف درج نیب مقدمات سے متعلق درخواستوں پر بھی سماعت کی، اس دوران ان کی سربراہی میں قائم بینچ نے نیب کی جانب سے گرفتار وزیر اعظم شہباز شریف اور سابق وزیر اعلی پنجاب حمزہ شہباز کی ضمانتیں منظور کیں۔‘
میاں داؤد کے بقول، ’جب بھی کوئی آئینی درخواست ان کے سامنے آئی تو انہوں نے قانونی پہلوؤں سے وکلا کی بحث کے بعد آئین و قانون کے مطابق ہی فیصلے دیے۔ وکلا جب ان کے سامنے کسی کیس میں پیش ہوتے ہیں تو پوری تیاری کے ساتھ پیش ہونا پڑتا ہے کیونکہ قانونی حوالوں کے بغیر وہ بحث سننے سے گریز کرتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جسٹس ملک شہزاد احمد خان کو عہدہ سنبھالتے ہی پنجاب کی ماتحت عدلیہ میں 13 لاکھ سے زائد جبکہ لاہور ہائی کورٹ میں دو لاکھ سے زائد زیر التوا کیسز کو بروقت نمٹانے کا چیلنج ہو گا۔ لاہورہائی کورٹ میں آٹھ مارچ کو ججز کی تعداد 38 رہ جائے گی اور مجموعی طور پر 22 ججز کی خالی آسامیوں کو پُر کرنا بھی ایک بڑا چیلنج ہو گا، کیونکہ گزشتہ ڈھائی برس سے لاہور ہائی کورٹ میں ایک جج کی بھی تقرری نہ ہونے سے انصاف کی بروقت فراہمی متاثر ہوئی ہے۔‘
میاں داؤد نے کہا کہ ’لاہور میں مقامی عدالتوں کی تقسیم سے متعلق وکلا گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے ہڑتال پر ہیں جبکہ لاہور میں کیسز کی سماعت بھی نہ ہونے سے سائلین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ امید ہے کہ جسٹس ملک شہزاد احمد خان تمام مسائل کا مثبت انداز میں کوئی حل نکالیں گے۔‘
جسٹس ملک شہزاد احمد خان کا تعارف اور وکلا سیاست میں کردار؟
لاہور ہائی کورٹ ریکارڈ کے مطابق جسٹس ملک شہزاد احمد خان 15 مارچ 1963 کو پنڈی گھیب ضلع اٹک میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے گورڈن کالج راولپنڈی سے گریجویشن کی، 1989 میں یونیورسٹی لا کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور 1990 میں راولپنڈی میں قانون کی پریکٹس شروع کی۔
وہ 1993 میں ہائی کورٹ اور 2004 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل بن گئے اور 21 سال بطور وکیل پریکٹس کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس ملک شہزاد احمد خان 2004 میں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی کے سیکرٹری جنرل اور 2009 میں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی کے صدر منتخب ہوئے۔ 12 مئی 2011 کو لاہور ہائی کورٹ میں ایڈیشنل جج مقرر ہوئے اور 11 مئی 2013 کو مستقل جج بن گئے۔
جسٹس ملک شہزاد احمد خان بطور چیف جسٹس 15 مارچ 2025 کو عہدہ سے ریٹائر ہوں گے۔ اس طرح وہ ایک سال چھ دن تک چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہیں گے۔
جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے گذشتہ روز بدھ کو لاہور میں وکلا کی تقریب سے خطاب میں کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں، وکلا آزاد عدلیہ، آئین اور قانون کی حکمرانی میں موثر کردار ادا کر رہے ہیں۔ لیکن پانچ فیصد وکلا یا ان کے بھیس میں جو لوگ بار میں ہیں ان کی وجہ سے سب بدنام ہیں۔ ملک کے حالات آپ سب کے سامنے ہیں موجودہ حالات میں عدلیہ اور وکلا ہی سب کی امید ہیں۔‘
انہوں نے کہا ’ججز بغیر کسی لالچ اور خوف کے فیصلے جاری کریں پنجاب میں 14 لاکھ کیسز ہیں ان کو نمٹانے میں سب کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ ماتحت عدلیہ کے ججز چیمبر کے بجائے کورٹ روم میں بیٹھنے کو ترجیح دیں۔‘
’میں سمجھتا ہوں ادارے کی بہتری کے لیے ماتحت عدلیہ کا کردار بہت اہم ہے ماتحت عدلیہ کے ججز جتنا کام کرتے ہیں دوسرے اداروں کے لوگ نہیں کرتے۔ مجھے دو، تین ممالک کے عدالتی نظام کو دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ ہانگ کانگ کی سپریم کورٹ میں کل 70 کیس تھے، ہمارے ججز کے پاس ان کی کپیسٹی سے پانچ گنا زیادہ کیس ہوتے ہیں، ماتحت عدلیہ کے ججز میں سے چند ایسے لوگ ہیں جن کی اصلاح کی انتہائی ضرورت ہے، ماتحت عدلیہ میں 700 ججز کی کمی ہے اس کے باوجود ججز کی کارکردگی قابل ستائش ہے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔