پاکستان: 187 ٹیکسٹائل ملز، 50 ہزار سے زائد پاور لومز بند ہونے سے برآمدات کتنی متاثر؟

آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری رضا باقر کے مطابق ملک بھر میں 187 سے زائد ٹیکسٹائل ملز بند ہو چکی ہیں۔ اگر حکومت نے فوری طور پر مسائل حل نہ کیے تو اس شعبے میں پاکستان کی برآمدی صلاحیت خطرناک حد تک کم ہونے کا اندیشہ ہے۔

20 جولائی 2023 کو لی گئی اس تصویر میں فیکٹری ملازمین لاہور میں کوہ نور ٹیکسٹائل ملز میں ایک مشین کی نگرانی کر رہے ہیں (فاروق نعیم / اے ایف پی)

ٹیکسٹائل مل مالکان کے مطابق حکومت پاکستان کی جانب سے مقامی خام مال پر 18 فیصد ٹیکس، درآمدی مال کو ٹیکس فری کرنے اور بجلی، گیس کی قیمتوں میں اضافے سے پیدا شدہ بحران کے نتیجے میں بڑی تعداد میں ملیں بند کرنا پڑ رہی ہیں۔

پاور لومز ایسوسی ایشن نے 50 ہزار سے زائد لومز مجبوری میں بند کرنے کی شکایت کی ہے۔

سرکاری ریکارڈ کے مطابق پاکستان دنیا میں ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کرنے والا ایشیا کا آٹھواں بڑا ملک ہے، لیکن گذشتہ کئی سالوں سے زرمبادلہ کمانے والے اس شعبے میں مشکلات اتنی بڑھتی جا رہی ہیں کہ انڈسٹری بند ہونے کا سلسلہ خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے۔

آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (ایپٹما) کے سیکریٹری رضا باقر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ناقابل برداشت ٹیکسوں، بجلی اور گیس کی غیر معمولی قیمتوں میں اضافے کے باعث ملک بھر میں 187 سے زائد ٹیکسٹائل ملز بند ہو چکی ہیں۔ اگر حکومت نے فوری طور پر مسائل حل نہ کیے تو اس شعبے میں ہماری برآمدی صلاحیت خطرناک حد تک کم ہونے کا اندیشہ ہے۔‘

پاور لومز ایسوسی ایشن کے صدر وحید خالق رامے نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’گذشتہ تین سالوں میں مشکل صورتِ حال کے پیش نظر ملک بھر میں 50 ہزار سے زائد پاور لومز بند ہو چکی ہیں۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کم ہونے سے کاروبار بہتر تو ہوا، لیکن اسے پہلے والی سطح پر نہیں لایا جا سکا۔‘

دوسری جانب، پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کی جانب سے دسمبر میں جاری اعدادوشمار کے مطابق رواں سال کپاس کی پیداوار گذشتہ سال کی نسبت 33 فیصد کم ہے، جس کی وجہ سے اس سال روئی کی گانٹھوں میں کمی 55 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ گذشتہ سال 2023 میں ملک بھر میں روئی کی گانٹھوں کی تعداد 85 لاکھ تھی۔ رواں برس صوبہ سندھ سے اب تک 27 لاکھ اور پنجاب سے 24 لاکھ گانٹھیں مارکیٹ میں آئی ہیں۔

حکومتِ پاکستان کی جانب سے حالیہ ’اڑان پاکستان‘ منصوبے کے تحت برآمدات کو 60 ارب ڈالر سالانہ تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، جس کے لیے اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔

ممبر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) ڈاکٹر نجیب میمن نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈسٹری مالکان کے مسائل حل کرنے کے لیے حکمت عملی بنائی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے پارلیمانی کمیٹی برائے خزانہ کو صنعت کاروں کی تجاویز بھجوا دی گئی ہیں۔ اس سال بجٹ میں ان تجاویز کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے مسائل حل کیے جائیں گے۔ جیسے جیسے حالات بہتر ہو رہے ہیں، شکایات کا ازالہ کرنے کے اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔‘

ٹیکسٹائل انڈسٹری بحران کا شکار کیوں ہے؟

سیکریٹری ایپٹما رضا باقر کے بقول، ’پاکستان میں گذشتہ کئی سال سے ٹیکسٹائل انڈسٹری مسلسل مشکلات سے دوچار ہے۔ پہلے بجلی کا بحران پریشان کرتا رہا، پھر تین سال سے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کر دیا گیا۔ اس کے بعد موجودہ حکومت نے جب جون-جولائی کے بجٹ میں مقامی خام مال پر 18 فیصد ٹیکس نافذ کیا تو ٹیکسٹائل انڈسٹری کی کمر ٹوٹ گئی۔ ایکسپورٹ فیسلیٹی ٹیکس کے نام سے لاگو اس پالیسی کے باعث خام مال درآمد کرنا پڑا، لیکن وہ بھی مقامی مارکیٹ جتنا ہی مہنگا پڑنے لگا۔‘

رضا باقر کے مطابق، ’بجلی کا ٹیرف 17 سینٹ فی یونٹ کر دیا گیا، اسی طرح گیس کا ٹیرف بھی غیر معمولی طور پر بڑھا دیا گیا۔ ان پالیسیوں کے نتائج یہ نکلے کہ ہماری ٹیکسٹائل مصنوعات کی عالمی مارکیٹ میں قیمت بہت زیادہ ہو گئی، جس کے باعث ہمارے ہمسایہ ممالک کو زیادہ آرڈرز ملنے لگے اور ہماری انڈسٹری بحرانوں کا شکار ہو گئی۔ کیونکہ بھارت میں انڈسٹری کے لیے بجلی کا ٹیرف چھ سینٹ فی یونٹ، ویت نام میں آٹھ جبکہ بنگلہ دیش میں 10 سینٹ فی یونٹ تک ہے۔ اسی طرح ٹیکس بھی ہم سے بہت کم ہیں، لہٰذا ان کی مصنوعات پر لاگت کم ہونے سے قیمت بھی ہم سے کم ہے۔‘

وحید خالق رامے نے کہا کہ، ’ہمارے ملک میں بجلی کے بحران اور ٹیکسوں کی بھرمار سے دوسری ٹیکسٹائل انڈسٹری کی طرح سپننگ اور جننگ فیکٹریاں بھی بند ہو رہی ہیں۔ گذشتہ تین سالوں میں ملک بھر سے 50 ہزار پاور لومز بند ہو چکی ہیں۔ ملک بھر میں اس شعبے سے لاکھوں افراد کا روزگار بھی متاثر ہوا ہے۔ ہزاروں لوگ یہ شعبہ چھوڑ کر دوسرے کاموں سے روزگار کمانے پر مجبور ہو گئے اور سینکڑوں افراد بے روزگار ہو گئے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وحید رامے کے بقول، ’ہم نے بہت احتجاج ریکارڈ کرائے، اعلیٰ حکام تک اپنے مطالبات پہنچائے، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ البتہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کم ہونے سے کام تو چل پڑے، کیونکہ انڈسٹری محدود ہو گئی، لہٰذا آرڈرز کم ہونے کے باوجود روزی کمانے جتنے ملتے رہتے ہیں، لیکن کچھ سال پہلے کی طرح پاور لومز انڈسٹری اپنے پاؤں پر پوری طرح کھڑی نہیں ہو سکی۔‘

ٹیکسٹائل انڈسٹری کے مسائل کا حل کیا ہے؟

رضا باقر کے مطابق، ’ملک بھر میں سینکڑوں ٹیکسٹائل ملز ہیں، لیکن ایپٹما میں رکن ملز کی تعداد 223 ہے۔ ہم نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو درپیش مسائل، ٹیکسوں، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ختم کرنے سے متعلق تجاویز حکومت کو بھجوا دی ہیں۔ وزیرِ اعظم اور وزیرِ خزانہ نے ہمیں یقین دہانی کرائی ہے کہ آئی ایم ایف سے معاملات طے کیے جا رہے ہیں، آئندہ بجٹ میں برآمدات کا ہدف بڑھانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ لہٰذا ٹیکسٹائل انڈسٹری کے ملز مالکان کے مسائل کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے، جنہیں حل کرنا ترجیح میں شامل ہے۔‘

ماہرِ معیشت الماس حیدر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ، ’پاکستان تمام وسائل سے مالامال ہے، لیکن حکومتی پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونے اور مؤثر پالیسی سازی کا فقدان ہے۔ اگرچہ ٹیکسوں سے ہی نظامِ ریاست چلتا ہے، مگر اس دوران معاشی ترقی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ کپاس کی پیداوار میں کمی کی بجائے اضافے کے مواقع فراہم کرے۔ اسی طرح انڈسٹری کو فروغ دینے کے لیے اضافی ٹیکس واپس لیے جائیں، بجلی اور گیس کے ٹیرف کم کرنا ہوں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ، ’عالمی مارکیٹ میں مصنوعات کی خریداری معیار اور کم قیمتوں کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ اگر ہمارے ہمسایہ ممالک میں تیار ہونے والی ٹیکسٹائل مصنوعات، جیسے شرٹس یا گارمنٹس، ہماری اشیا سے سستی اور معیاری ملیں گی تو کمپنیاں ہم سے مہنگی مصنوعات کیوں خریدیں گی؟ حکومت کو چاہیے کہ دیگر صنعتوں کے ساتھ ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے بھی سازگار حالات پیدا کرنے کی پالیسیاں بنائے۔ کیونکہ معیشت کا انحصار زرمبادلہ پر ہوتا ہے، جو تبھی بڑھے گا جب درآمدات کے مقابلے میں برآمدات میں اضافہ ہوگا۔‘

حکومت کا موقف

قومی اسمبلی کے آج (جمعے کو) اجلاس میں پارلیمانی سیکریٹری برائے خزانہ سعد وسیم شیخ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ، ’ٹیکسٹائل انڈسٹری مالکان کی شکایات اور تجاویز ہمیں موصول ہو چکی ہیں۔ ہم مقامی خام مال پر ٹیکسوں میں کمی سمیت دیگر مسائل حل کرنے کی حکمت عملی تیار کر رہے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان