جنوبی وزیرستان کے جنگلی زیتون کا ملکی زرمبادلہ میں کردار

بیٹنی کے ڈسٹرکٹ ڈائریکٹر محکمہ زراعت ڈاکٹر انور خان نے کہا کہ ’جنوبی وزیرستان میں سالانہ سات لاکھ لیٹر زیتون تیل پیدا کرنے کی گنجائش ہے، جس سے سالانہ دو ارب 40 کروڑ روپے آمدن حاصل کی جا سکتی ہے۔‘

بیٹنی کے ڈسٹرکٹ ڈائریکٹر محکمہ زراعت ڈاکٹر انور خان نے کہا کہ ’وانا زیتون پلانٹ سے اس سال اوسطاً 12 ہزار لیٹر زیتون تیل نکالا جا چکا ہے‘ (فائل فوٹو: انڈپینڈنٹ اردو)

خیبر پختونخوا (کے پی) کا ضلع جنوبی وزیرستان 6620 سکوائر کلومیٹر پر محیط پہاڑی علاقہ ہے جس میں جنگلی زیتون کے وسیع وعریض جنگلات پائے جاتے ہیں۔

محکمہ زراعت جنوبی وزیرستان کے اعداد و شمار کے مطابق اپر اور لوئر جنوبی وزیرستان میں جنگلی زیتون کے اوسطاً ایک کروڑ چالیس لاکھ درخت ہیں جس میں 90 فی صد درخت اپر وزیرستان میں جبکہ 10 فی صد درخت لوئر وزیرستان میں پائے جاتے ہیں۔

جنوبی وزیرستان اپر چگملائی کے مقام پر زیتون کا پلانٹ نصب کرنے والے عمر مختار کا کہنا ہے کہ ’میں دبئی محنت مزدوری کے لیے گیا تھا، وہاں مراکش سے تعلق رکھنے والے میرے ایک دوست نے مجھے بطور تحفہ زیتون کا تیل دیا۔

’انہوں نے مجھے بتایا کہ یہ جنگلی زیتون کے پھل سے بنایا گیا ہے، تصویر دکھانے پر مجھے احساس ہوا کہ یہ تو بالکل وزیرستان میں پائے جانے والے پھل کی طرح ہے، بس پھر کیا تھا میں نے دو تین دن وزیرستان میں جنگلی زیتون کے پودوں کی تلاش میں گزارے تب مجھے معلوم ہوا کہ یہاں سالانہ بنیادوں پر اربوں روپوں کے یہ پھل ضائع ہو رہے ہیں بس یہی بنیاد بنا میرے پلانٹ کے قیام کی، جس سے اس سال 12 ہزار لیٹر تیل کی پیداوار ہوئی ہے۔

بیٹنی کے ڈسٹرکٹ ڈائریکٹر محکمہ زراعت ڈاکٹر انور خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’جنوبی وزیرستان اپر اور لوئر میں سالانہ سات لاکھ لیٹر زیتون تیل پیدا کرنے کی گنجائش ہے، جس سے سالانہ دو ارب 40 کروڑ روپے آمدن حاصل کی جا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’جنگلی زیتون کا ایک درخت 15 سے 20 کلو پھل دیتا ہے۔‘

ڈاکٹر انور خان کا کہنا تھا:’فرنٹیئر کانسٹیبلری کے پی کے تعاون سے 67 ہزار جنگلی زیتون کی پیوندکاری کی گئی ہے، علاوہ ازیں پسماندہ علاقوں میں زیتوں کی ترویج کے پراجیکٹ کے تعاون سے 35,000 جنگلی زیتون کے درختوں کی پیوندکاری کی گئی ہے جبکہ مزید دو لاکھ 60 ہزار جنگلی پودوں میں پیوندکاری کی جائے گی۔

’اس کے علاوہ محکمہ زراعت جنوبی وزیرستان نے 492 ایکڑ رقبے پر اعلیٰ قسم کے زیتون کے باغات لگائے گئے ہیں جبکہ مذکورہ بالا پراجیکٹ کے تعاون سے مزید دو ہزار آٹھ سو ایکڑ رقبے پر اعلیٰ قسم کے باغات لگائے جائیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا: ’صوبائی حکومت کے تعاون سے وانا میں زیتون کا پلانٹ لگایا جا چکا ہے، اپر وزیرستان کے لیے بھی زیتون کا پلانٹ آ چکا ہے جسے جلد سے جلد لگایا جائے گا۔

’وانا زیتون پلانٹ سے اس سال اوسطاً 12 ہزار لیٹر زیتون تیل نکالا جا چکا ہے۔‘

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق ضلعی صدر اور سابقہ امیدوار برائے قومی اسمبلی وادی کانیگرم سے تعلق رکھنے والے عارف زمان برکی نے زیتون کی افادیت اور جنوبی وزیرستان پر اس کے معاشی اثرات کے حوالے سے بتایا کہ ’اپر وزیرستان کے علاقوں پیرکلے، ورغاڑو منزے، چینے، لنڈائی راغزائی، شامکائی، نانو، گژگنڑیے، اپر سیپلاتوئی، غورغورائی، سرمشائی، گنڈیرای، لورسیپلاتوئی، اوس پاس عباس خیل میں زیتون کے وسیع جنگلات پائے جاتے ہیں۔

’اس کے علاوہ پالگئے، پنگے پڑے خیل، ژاندرہ راغزائی، اوسپینہ راغزائی، قریشان، سترہ میلہ، دارکائی، ڈاب، سٹ خیل، بانگے والا، نارگوسا، پڑتیگئی، شلمانزئی، ڈیلے، شنکئی، جٹیرائی، خادے، کڑمہ، جنتہ اورشکتوئی میں بھی زیتون کے پودوں کے جنگلات موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’اگر اس جانب حکومت توجہ دے تو اس کے ثمرات عوام تک پہنچائے جاسکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے عوام کے پاس ایسی کوئی سہولت نہیں ہے جس سے علاقائی عوام جنگلی زیتون کے پھل سے فائدہ اٹھا سکیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت یونین کونسل (یو سی) سطح پر کم لاگت کے چھوٹے چھوٹے زیتون کے تیل کی مشینری نصب کرے کیونکہ حکومتی سطح پر منظور شدہ پلانٹ سے صرف فارمی سطح پر اگائے گئے زیتون کے پودوں سے تیل نکالا جا سکتا ہے نہ کہ جنگلی زیتون کے پودوں سے۔‘

’اس کے پھل کو جمع کرنے کے لیے جگہیں مختص کی جائیں، عوام پھل جمع کرکے ان پوائنٹس تک  پہچائے تاکہ سالانہ اربوں روپوں کے زیتون کے پھل ضائع نہ ہوں۔

عارف زمان برکی نے کہا: ’معاشی اثرات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس سے وزیرستان میں مستقل رہائش پذیر آبادی کو گھر کی دہلیز پر آمدن کے باعزت مواقع میسر آئیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ جنوبی وزیرستان کے صاحب ثروت افراد جنہوں نے ملک کے دیگر حصوں میں سرمایہ کاری کی ہے ان کی توجہ اس جانب مبذول ہو گی اور وہ اپنے علاقوں میں سرمایہ کاری کریں گے۔‘

واضح رہے کہ سالانہ سات لاکھ لیٹر تیل کی گنجائش رکھنے والے جنوبی وزیرستان اپر اور لوئر سے اس سال 20 سے 24 ہزار لیٹر تیل نکالا جا چکا ہے۔

جنوبی وزیرستان میں جنگلی زیتون کے پودے دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں ہونے اور پھل چھوٹا ہونے کی وجہ سے اکثر ضائع ہو جاتا ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ ان علاقوں میں عوام کے تعاون سے پیوندکاری کے عمل میں تیزی لائی جائے تاکہ سالانہ اربوں روپے کے پھل ضائع ہونے سے محفوظ رہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت