پاکستان میں جج کے عہدے پر فائزہونے والی دو ہندو خواتین میں سے ایک، جوڈیشل مجسٹریٹ سمن کماری ہیں۔ ان کے والد ڈاکٹر پون کمار بودانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی بیٹی انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی اعلی مثال قائم کریں گی۔
پاکستان میں مرد ججوں کے مقابلے میں خواتین جج کی تعداد ناکافی ہے، اقلیتی فرقوں سےوابستہ مرد و خواتین بھی تاریخ پاکستان میں اس عہدے پہ بہت کم فائز ہوئے ہیں۔ حال ہی میں پہلی بار دو ہندو خواتین پاکستانی ججوں میں شامل ہوئی ہیں۔
دیانہ کماری اور سمن کماری کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ قیام پاکستان کے بعد وہ پہلی ہندو خواتین ہیں ، جنہیں سندھ ہائی کورٹ نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے عہدے پر مقرر کرنے کی سفارش کی ہے۔
دیانہ اور سمن نے مئی 2018 میں جوڈیشل مجسٹریٹ بننے کا امتحان پاس کیا ۔ حال ہی میں سندھ ہائی کورٹ نے ان کی تقرری کا نوٹیفکیشن نکالا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ کی سرکاری ویب سائٹ پر جاری نوٹیفکیشن میں انہیں جوڈیشل مجسٹریٹ کے طور پر مقرر کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
سمن کماری نے انڈیپنڈینٹ اردو کو باتایا کہ ان کے والد نے اپنی بیٹی کے جج بننے کا خواب دیکھا تھا۔
اس خواب کی تعبیر کے لیے اپنے بھائیوں اورساری برادری کی شدید مخالفت کے باوجود مجھے تعلیم دلائی۔
انہوں نے کہا کہ آج جج بن کر، والد کے خواب کی تعبیر پوری کر کے، انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی ساری تھکاوٹ اتر گئی ہے۔
سمن جج کی کرسی پر بیٹھ کے غریبوں اور بے سہارا لوگوں کو بر وقت انصاف مہیا کرنے کا عزم رکھتی ہیں۔
سمن کماری کے والد ڈاکٹر پون کماربودانی آنکھوں کے ماہر ڈاکٹر ہیں، وہ جنوبی سندھ کے ضلع شہداد کوٹ میں اپنا نجی کلینک چلاتے ہیں۔
ڈاکٹر پون کمار کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں، برادری کی مخالفت کے باجود انہوں نے اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلوائی۔
’جب بیٹیوں کو اسکول میں داخل کروایا تو میرے بھا ئیوں نے بھی مخالفت کی، کہ برادری والے کیا سوچیں گے، مگر میری خواہش تھی کہ بیٹی جج بنے، وہ خواہش آج پوری ہوگئی‘۔
پاکستان میں ہندو برادری آبادی کے لحاظ سے بڑی اقلیتی برادری سمجھی جاتی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہندوؤں کی آبادی ساٹھ لاکھ کے قریب ہے مگر نمائندہ ہندو تنظیمیں دعوی کرتی ہیں کہ پاکستانی ہندوؤں کی تعداد اسی لاکھ سے زائد ہے۔ پاکستانی میں ہندو برادری کی اکثریت سندھ میں رہتی ہے۔
صوبہ سندھ میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں سندھی ہندوؤں کی بڑی تعداد مختلف عہدوں پر کام کرتی ہے۔
صحت کے شعبے میں ہندو خواتین کی تعداد ہندو مردوں کے برابرہے، اس کے علاوہ زراعت ، آبپاشی، محکمہ جنگلات و دیگر شعبوں میں ہندو مرد و خواتین مختلف عہدوں پر کام کرتے ہیں۔ عدلیہ میں بھی جج، جوڈیشل مجسٹریٹ، وکلا سمیت دیگر عہدوں پر کئی ہندو مرد خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں۔
مگر ڈاکٹر پون کمار نے دعوی کیا کہ ان کی بیٹی، سمن کماری کی سول جج اور جوڈیشل مجسٹریٹ کے عہدے پرتقریری، پاکستان میں پہلی ہندو خاتون کی اس عہدے پر تقرری ہے۔
ڈاکٹر پون کمار بودانی نے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ ہر پاکستانی ہندو اپنی بیٹی کوتعلیم دلائے، تاکہ وطن عزیز کی خدمت کی جا سکے۔