ایک عرصے سے خسارے میں چلنے والی پاکستان ریلوے کی انتظامیہ نے ایسی پوسٹیں ختم کرنا شروع کر دی ہیں جن پر گذشتہ ایک سال سے کوئی ملازم کام نہیں کر رہا۔
ریلوے ترجمان بابر علی رضا کے مطابق ملک بھر میں ایسے شعبوں سے خالی پوسٹیں ختم کی جا رہی ہیں جن کا تعلق ٹرین آپریشن سے نہیں بلکہ دیگر شعبوں سے ہے۔
ریلوے انتظامیہ کی جانب سے یہ پوسٹیں وفاقی حکومت کی ہدایت پر ختم کی جا رہی ہیں لہٰذا اب تک تین ہزار 390 خالی پوسٹوں میں سے ایک ہزار 326 ختم کر دی گئی ہیں۔
ریلوے ملازمین کی جانب سے متعدد بار شکایات سامنے آئیں کہ آپریشنل عملہ کم ہو چکا ہے اس لیے ملازمین کو کئی کئی گھنٹے اضافی ڈیوٹی کرنا پڑتی ہے۔
ریلوے ایمپلائیز یونین کے سینیئر نائب صدر اعجاز قریشی کے مطابق ’ہر شعبے سے کئی کئی ملازم پہلے ہی کم ہیں اور ٹرین ڈرائیور سمیت دیگر عملے کو دس دس گھنٹے اضافی ڈیوٹی کرنی پڑتی ہے جس سے ملازمین کی صحت کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور ٹرین آپریشن بھی متاثر ہو رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ٹرین آپریشن کو بہتر کرنے کے لیے ملازمین بھرتی کیے جاتے لیکن ریلوے انتظامیہ خالی پوسٹیں ختم کر رہی ہے جس سے مشکلات بڑھیں گی۔‘
کن شعبوں سے کتنی پوسٹیں ختم ہوئیں؟
ترجمان ریلوے بابر علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ملک بھر میں محکمہ ریلوے سے خالی پوسٹیں ختم کرنے کا فیصلہ ریلوے انتظامیہ کا نہیں بلکہ وفاقی حکومت کا ہے، جس پر عمل کرتے ہوئے غیر آپریشنل شعبوں سے وہ پوسٹیں ختم کی جا رہی ہیں جو ایک سال سے خالی پڑی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ایک ہزار 326 پوسٹیں ختم کر دی گئیں ان کی تعداد اب دو ہزار 67 رہ گئی ہے۔
شعبہ ویلفیئر کی 37 پوسٹوں کو کم کر کے 22 کر دیا گیا ہے ان میں سے 15 پوسٹیں ختم کر دی گئیں۔ شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کی پوسٹیں ایک سو 16 سے کم کر کے 31 کر دی گئی ہیں۔ یہ کمی آئی ٹی عملے کی 85 پوسٹوں کے خاتمے کے ذریعے عمل میں لائی گئی ہے۔‘
بابر علی کے بقول، ’شعبہ سٹور کی 25 سو 30 میں سے چار سو پوسٹیں ختم کر کے 21 سو 30 کر دی گئی ہیں۔ اسی طرح طبی عملے کی 17 سو 58 میں سے 853 پوسٹیں ختم کر دی گئیں اب اس شعبے میں 905 پوسٹیں بقایا ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کہا کہنا تھا، ’اس اقدام سے ریلوے کے آپریشن پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ان شعبوں سے آپریشن کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس وقت ریلوے کی کل پوسٹوں کی تعداد 92 ہزار ہے جبکہ ملازمین 63 ہزار کام کر رہے ہیں۔ ٹرینوں کی تعداد بھی 90 کے قریب ہے لہٰذا ملازمین کی موجودہ تعداد ان ٹرنیوں کے لیے کافی ہے۔ کچھ ٹرینیں نجی شعبے کے ذریعے چلائی جا رہی ہیں۔‘
پوسٹیں ختم ہونے سے ٹرین آپریشن پر کیا اثر پڑے گا؟
ترجمان ریلوے بابر علی نے کہا کہ ’پوسٹیں ختم کرنے سے آئندہ ٹرینوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہو تب بھی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ریلوے کا پہلے سے مینول نظام اب آٹومیٹک جدید طرز پر بھی منتقل ہوتا جا رہا ہے۔ اس لیے جہاں پہلے تین ملازمین کی ضرورت ہوتی تھی اب ایک کام چلا سکتا ہے۔
ٹرین آپریشن کے لیے ملازمین کی کمی ہے، تین کی جگہ ایک ملازم کام کر رہا ہے ایک کی بجائے دو دو شفٹوں میں کام لیا جا رہا ہے۔ طبی شعبے یعنی ہسپتالوں سے اور آئی ٹی شعبے سے عملہ کم کریں گے تو کام کیسے متاثر نہیں ہو گا؟
’دوسری بات یہ ہے کہ ٹرین آپریشن بہتر انداز میں چل رہا ہے۔ گذشتہ کئی ماہ سے ریلوے نے اپنے اخراجات پر قابو پایا اور آمدن میں اضافہ کیا ہے۔ آمدن مسلسل بڑھنے سے مالی طور پر محکمہ مستحکم ہو رہا ہے۔‘
ریلوے ایمپلائیز یونین کے سینئر نائب صدر اعجاز قریشی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انتظامیہ ملازمین بھرتی کرنے کی بجائے خالی پوسٹیں ختم کر رہی ہے۔ جن شعبوں میں نشستیں خالی قرار دے کر ختم کی جا رہی ہیں وہ بھی ملازمین کے لیے ہی ہیں۔ حکام نے ابھی تک ملازمین کی فلاح بہبود کا بڑا منصوبہ نہیں بنایا۔ الاؤنسز اور تنخواہوں میں بھی اضافہ نہیں کیا جا رہا۔
’ٹرین آپریشن کے لیے ملازمین کی کمی ہے، تین کی جگہ ایک ملازم کام کر رہا ہے ایک کی بجائے دو دو شفٹوں میں کام لیا جا رہا ہے۔ طبی شعبے یعنی ہسپتالوں سے اور آئی ٹی شعبے سے عملہ کم کریں گے تو کام کیسے متاثر نہیں ہو گا؟‘
اعجاز قریشی کے بقول، ’ابھی تو ٹرینوں کی تعداد کم ہے اور نجی شعبے کو بھی گاڑیاں دی گئی ہیں۔ اگر ٹرینوں کی تعداد پہلے جتنی ہوتی ہے اور نظام بہتر ہوتا ہے تو کم ملازمین کے ساتھ کام کیسے چلے گا۔ لہٰذا ریلوے حکام کو اسامیاں ختم کرنے کی بجائے ٹرینوں کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہیے۔ اگر بچت کرنا ہے تو بڑے افسران کی اسامیاں ختم کی جائیں کیونکہ ایک افسر دو محکمے چلا سکتا ہے لیکن چھوٹے ملامین کام کی نوعیت سے زیادہ ذمہ داری نہیں اٹھا سکتے۔‘
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ حکومت ریلوے سے ملازمین کی پوسٹیں ختم کر کے نجکاری کی طرف لے جانا چاہتی ہے جسے ملازمین کبھی قبول نہیں کریں گے۔‘