’میری تنخواہ 28 ہزار روپے ماہانہ ہے جو ایک، ایک ماہ تاخیر سے ملتی ہے۔ میرے دو بچے ہیں جنہیں فیس نہ ہونے پر سکول سے ہٹا لیا ہے۔‘
یہ کہنا تھا کہ لاہور میں ریلوے سٹیشن کی واشنگ لائن پر کام کرنے والے سکیل ون کے ملازم وسیم قریشی کا۔
وسیم کے مطابق ’بیمار بیوی کی دوائی کے پیسے نہیں بچتے۔ مہنگائی کے اس دور میں بجلی، گیس کے بل ادا ہوجائیں تو بڑی بات ہے، راشن کے لیے پیسے کہاں سے لائیں؟‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کسی کی شادی پر جانا ہو تو سوچتے ہیں کہ شریک تو پرانے کپڑے پہن کر ہو جائیں گے مگر وہاں رسومات میں پیسے کہاں سے دیں گے۔ اب تو ریلوے ملازم کا سن کر رشتے دار بھی ادھار پیسے نہیں دیتے کہ پہلے لیے ہوئے واپس نہیں کیے۔ ان کو تو تنخواہ ہی نہیں ملتی۔‘
وسیم کے مطابق ’میرے ساتھ ریلوے کے ہزاروں ملازمین اسی طرح تنگ دستی کے ہاتھوں مجبور ہیں۔
’ڈیوٹی تو 10، 10 گھنٹے کرائی جاتی ہے کیونکہ ملازم کم ہیں، نئی بھرتیاں ہوئی نہیں، لیکن گذشتہ چار، پانچ ماہ سے تنخواہ ہی وقت پر نہیں مل رہی تو کہاں جائیں؟‘
ریلوے ملازمین کی تعداد اور احتجاج
محکمہ ریلوے کے ریکارڈ کے مطابق 1950 سے 1990 تک پاکستان ریلوے کے ملازمین کی تعداد کم و بیش ایک لاکھ تک تھی، جو پرانے ملازمین کے ریٹائر ہونے کے بعد مسلسل نئی بھرتیاں نہ ہونے کے باعث اب 65 ہزار تک رہ گئی ہے۔
محکمہ ریلوے کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ ریلوے سے ریٹائرڈ تقریباً ایک لاکھ کے قریب پینشنرز موجود ہیں۔
ریلوے ملازمین کی فلاح کے لیے شادی فنڈ، فئیرویل فنڈ، فوتگی فنڈ، بینوویلنٹ فنڈز سمیت دیگر مراعات بھی پیکج کا حصہ ہیں۔
صدر ریلوے ایمپلائیز یونین شیخ محمد انور نے کہا کہ ’گذشتہ 10 ماہ سے تنخواہیں مسلسل تاخیر سے مل رہی ہیں۔ ہر ماہ پہلے سے زیادہ تاخیر ہو رہی ہے اور اب یہ تاخیر دو ماہ میں ایک بار ادائیگی تک پہنچ گئی۔‘
ان کے مطابق ’اس صورت حال میں ملازمین کے چولہے ٹھنڈے پڑ رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے بیل آوٹ پیکج روکے جانے کے بعد ریلوے مالی بدحالی کا شکار ہوا جو 50 ارب روپے تک سالانہ پیکج ملتا تھا وہ حکومت نے روک دیا ہے جس کے بعد ریلوے کو اپنی کم آمدنی میں ہی گزارہ کرنا پڑتا ہے۔‘
شیخ انور کے بقول: ’ایک طرف ملازمین کم ہونے کے باعث دو، دو شفٹوں میں ملازمین کو کام کرنا پڑرہا ہے دوسری جانب تنخواہ نہ ملنے پر گھروں میں بھی پریشانی ہے۔
’ان حالات میں ریلوے ملازمین کے پاس سوائے احتجاج کے کوئی راستہ نہیں۔ ہم نے لاہور میں بھی احتجاج کیا فیصل آباد، کراچی اور راول پنڈی میں بھی ملازمین احتجاج کر رہے ہیں۔‘
ریلوے ملازمین یونین کے صدر نے مزید کہا کہ ’حکومت یا ریلوے انتظامیہ ملازمین کی تنخواہیں بروقت ادائیگی یقینی بنانے میں سنجیدہ نہیں۔
’کہا جاتا ہے کہ ریلوے خود کمائے اور خرچ کرے۔ ہم پوچھتے ہیں ملک میں عدلیہ، فوج، بیوروکریسی سمیت کتنے ادارے ہیں جو خود کما کر خرچ کرتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مطابق: ’اس طرح کی توجیحات دینے کی بجائے حکومت کو چاہیے کہ ریلوے ملازمین کی تنخواہیں مقررہ وقت پر ادا کرنے کا حکم دے۔
’ہم اس طرح کے حربوں سے ادارے کی نج کاری کبھی نہیں ہونے دیں گے، اگر فوری تنخواہیں ادا نہ کی گئیں تو 10 دن بعد ہید کوارٹر کا گھیراؤ کیا جائے گا۔‘
ریلوے حکام کی تنخواہیں ادا کرنے کی حکمت عملی
ترجمان ریلوے بابر رضا نے تصدیق کی کہ ’ملک بھر میں ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی 15 دن تک تاخیر سے ادا ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ مالی مشکلات ہیں۔‘
ان کے مطابق ’ریلوے نے مرحلہ وار تنخواہ ادا کرنا ہوتی ہے۔ پہلے مرحلے میں ہیڈ کوارٹر، پھر اے گروپ، بی گروپ، سی گروپ اور ڈی گروپ میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
’یکم سے 25 تک ہر ماہ مکمل تنخواہیں ادا کرنا ہوتی ہیں۔ ہمیں اپنے وسائل یعنی ٹرینوں کی آمدن سے تنخواہوں کی ادائیگی اور اخراجات یقینی بنانا ہوتے ہیں۔‘
بابر کے مطابق گذشتہ کچھ ماہ سے ٹرینوں کی تعداد میں کمی کے باعث آمدن پر فرق پڑا ہے۔
’ہم آمدن جمع کر کے ہر گروپ کی تنخواہ ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب آمدن جمع کرنے میں تاخیر ہوتی ہے تو چند ماہ سے تنخواہیں بھی 15 سے 20 دن تک لیٹ ہوجاتی ہے مگر ادائیگی ضرور کی جا رہی ہے۔‘