آج سے پانچ سال پہلے، یونیورسٹی کے دنوں میں، پیپر سے فارغ ہو کے مال کا رخ کیا۔
جھولے لینے کا خاص شوق نہیں لیکن ڈاجنگ کار کے لیے انکار ممکن نہیں تھا، چلانی آتی نہیں تھی اور بیلٹ باندھی نہیں تھی، بس وہی پہلی اور آخری بار تھی۔ ڈاجنگ کار کے مزے لیتے ہوئے گھٹنے پر شدید چوٹ آئی، ایسی چوٹ کہ ہر سال سردیوں میں دوبارہ حال احوال لینے آ جاتی ہے۔
جسمانی چوٹ ٹھیک ہونے کے لیے اپنا پورا وقت لیتی ہے۔ پٹھے کمزور ہو جائیں تو مضبوطی پکڑنے میں سال لے جاتے ہیں۔ خراب چیزیں ٹھیک ہو سکتی ہیں، اگر انہیں ٹھیک ہونے کا موقع دیا جائے، جسم بھی ایک ’موقعے‘ کی شکل میں آرام مانگتا ہے۔
جسم اگر وہ موقع خود مانگ لے تو اسے برن آؤٹ کہا جاتا ہے۔
برن آؤٹ (شدید تھکن کا احساس) کا اندھیرا اسی طرح کا اندھیرا ہے جو تب محسوس ہوتا ہے جب ہماری کہنی میز کے کونے میں جا لگتی ہے، جب پاؤں کا انگوٹھا دروازے کو سلام کہتا ہے یا جب آپ کی ڈاجنگ کار، اگلی ڈاجنگ کار سے جا ٹکراتی ہے، اور ایک چوٹ سارا منظر تبدیل کر دیتی ہے، آنکھوں کے سامنے تمام رنگ، تمام روشنیوں کو گھپ اندھیرے میں بدل دیتی ہے۔
جسمانی چوٹ ہے تو نظر تو آئے گی، گھٹنے پہ گرم پٹی اور آپ کا بیڈ ریسٹ ساری گیم واضح کر دے گا، سہولت یہ بھی ہے کہ آپ بول کر اپنی تکلیف بیان کر دیں گے، چیخنا چاہیں تو شاید چیخ بھی لیں گے، لیکن اس اندھیرے کو کیسے بیان کریں گے، جس نے ساری روشنیاں اور سارے رنگ، پل بھر میں غائب کر دیے؟
دنیا بھر میں نوجوانوں کی تقریباً ایک تہائی سے زیادہ تعداد مسلسل تھکاوٹ محسوس کرتی ہے اور برن آؤٹ کے کیسز میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
کیا آپ کو کبھی ایسا محسوس ہوا ہے کہ آپ جتنا بھی کام کر لیں وہ کافی نہیں؟ آپ گھنٹوں کام کر لیں، بریک نہ لیں، سب سے بہتر کام کریں لیکن بہترین کام دیتے دیتے آپ کو آرام کا وہ الارم سنائی نہ دے، جو آپ کا جسم بجا رہا ہے تو کیا ہو گا؟
تحقیق یہ بات ثابت کرتی ہے کہ برن آؤٹ کی بڑی وجوہات میں کام کی زیادتی اور اچھے کام پر بھی داد نہ ملنا شامل ہیں۔
اور عموماً دفتروں کا کلچر کیا ہے؟ کام زیادہ - معاوضہ کم، ناانصافی زیادہ - داد کم، ایک کے بعد دوسری ذمے داری لیکن آرام – کم، اور یہیں برن آؤٹ کا کالا بادل سر پر آ کر رک جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کلچر میں سٹریس ہمارے سیلری پیکج کا حصہ ہے۔ کامیاب ہونے کا سٹریس، سارے خواب پورے کرنے کا سٹریس، ایسے میں ہم سب کے لیے یہ سمجھنا بھی مشکل ہے کہ رکنا ہوتا ہے، سانس بھی لینا ہے، جسم کے نڈھال پڑنے کا انتظار نہیں کرنا بلکہ رک کر اس غریب کو تھوڑا آرام بھی دینا ہے۔
ہم سب آگے نکلنے کی دوڑ میں بھاگ رہے ہیں، کچھ جی رہے ہیں، کچھ صرف گزار رہے ہیں، کچھ جیت رہے ہیں، کچھ صرف زندہ رہنے کی کوشش میں ہیں لیکن سبھی ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے بس گزرتے جا رہے ہیں۔ دو منٹ بیٹھ کر سانس لینے کی سہولت نہیں، ایک آنسو بہانے کا وقت نہیں، تھکاوٹ کا کوئی نام نہیں، تھم جانے کا کوئی تصور نہیں، ایسے میں اگر کوئی ایک دن اس دوڑ سے کٹ جانا چاہے تو اسے آپ کیا نام دیں گے؟
موجودہ بے رحم نظام میں ہمارے جسم کی حیثیت ایک کھٹارا گاڑی جیسی ہے جو دھکوں پر چل رہی ہے، اور عجب بات یہ ہے کہ اس گاڑی کو دھکا لگانے والے بھی ہم خود ہی ہیں۔
ایسے دن کہ جب بستر سے اٹھنا محال ہو، جسم تھکن سے ٹوٹ رہا ہو، جب ذہن کچھ بھی سوچنے کی سکت نہ رکھتا ہو، جب چیخنے کا دل ہو پر اس ایک چیخ کے لیے بھی ہمت درکار ہو، جب کمرے کی دیواروں کو تکتے تکتے ہی وقت نکل جائے، اور ایسے دن کہ جب آٹھ گھنٹے کی نیند کے بعد، دوبارہ جاگتی آنکھوں سے نیند کے ہی خواب دیکھیں تو اس کیفیت کو آپ کیا نام دیں گے؟ یہی سب کچھ برن آؤٹ میں بدلتا ہے۔
زندہ رہنے کی اس جنگ میں ہم نے سب سے زیادہ زیادتی اپنے جسموں کے ساتھ کی ہے، دھکے دے دے کر اسے چلا تو رہے ہیں لیکن کیا اس کے ایک بھی دھکے کے لیے ہم تیار ہیں؟
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔