ویڈیو کال پر خود کو دیکھنا ذہنی تھکاوٹ کا باعث بنتا ہے: تحقیق

گیلوے یونیورسٹی کے ماہرین نے دریافت کیا کہ جو لوگ زوم یا ٹیمز جیسی ایپس پر میٹنگز میں حصہ لیتے ہیں وہ اس وقت زیادہ تھکاوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں جب وہ خود کو سکرین پر دیکھ رہے ہوں۔

یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل 10 مارچ، 2020 کو برسلز میں یورپی کونسل میں کرونا وائرس، کوویڈ 19 کے بارے میں یورپی رہنماؤں کے ساتھ کانفرنس کال کے دوران بات کر رہے ہیں (اے ایف پی / سٹیفنی ایل)

دماغی سرگرمی کی ایک تحقیق کے مطابق ویڈیو کانفرنسنگ کالز کے دوران اپنی تصویر دیکھنے سے ذہنی تھکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔

گیلوے یونیورسٹی آئرلینڈ کے ماہرین نے دریافت کیا کہ جو لوگ زوم یا ٹیمز جیسی ایپس پر میٹنگز میں حصہ لیتے ہیں وہ اس وقت زیادہ تھکاوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں جب وہ خود کو سکرین پر دیکھ رہے ہوں۔

تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ مرد اور خواتین اپنی تصویر دیکھتے وقت یکساں طور پر تھکاوٹ کا شکار ہوتے ہیں، جو کہ ماضی کے نتائج کے برعکس ہے جس میں کہا گیا تھا کہ سیلف ویو ویڈیو کانفرنسنگ سے خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ تھکاوٹ کا شکار ہوتی ہیں۔

محققین کی ٹیم نے الیکٹرواینسی فیلوگرافی (ای ای جی) کا استعمال کرتے ہوئے 32 رضاکاروں کی مانیٹرنگ کا ایک تجربہ کیا جن میں 16 مرد اور 16 خواتین شامل تھیں۔ سب نے مختلف اوقات میں سیلف ویو موڈ کے ساتھ ایک لائیو زوم میٹنگ میں حصہ لیا۔

محققین کا کہنا تھا کہ ای ای جی سر پر لگائے گئے الیکٹروڈز کا استعمال کرتے ہوئے دماغ میں بے ساختہ برقی سرگرمی کو ریکارڈ کرتا ہے اور دماغی تھکاوٹ کے آغاز کا پتہ لگا سکتا ہے۔

مانیٹرنگ نے اس بات کی تصدیق کی کہ اپنی تصویر دیکھنے کے دوران شرکا کی تھکاوٹ کی سطح نمایاں طور پر زیادہ تھی۔

پچھلی تحقیق کے مطابق زوم پر خواتین کو مردوں کے مقابلے میں زیادہ تھکاوٹ ہوتی ہے۔ اس تحقیق کا انحصار زیادہ تر سروے اور انٹرویوز کے ذریعے جمع اور خود رپورٹ کردہ اعدادوشمار پر ہے۔

اس صنفی فرق کے لیے پہلے پیش کیے جانے والے نظریات اس بات پر مرکوز ہیں کہ جب خواتین خود کو آئینے میں دیکھتی ہیں تو ان کی اپنی ظاہری شکل کے بارے میں آگاہی میں اضافہ ہوتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم، گیلوے یونیورسٹی کے مطالعے، جس نے نیوروفزیولوجیکل سطح پر تھکاوٹ کی پیمائش کی، نے سوال اٹھایا کہ کیا مردوں اور خواتین میں ویڈیو کانفرنسنگ تھکاوٹ میں فرق واقعی موجود ہیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ یہ نتائج نہ صرف کام کی جگہ پر ویڈیو کانفرنسنگ کے ڈرامائی طور پر بڑھتے ہوئے استعمال کے نتیجے میں محسوس ہونے والی تھکاوٹ کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں بلکہ ہائبرڈ اور ریموٹ ورک کے دور میں ملازمین کی فلاح و بہبود کے تحفظ کے مقصد سے کام کرنے والی تنظیموں کے لیے عملی بصیرت بھی فراہم کرتے ہیں۔

یونیورسٹی آف گالوے کے پروفیسر ایون ویلان کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران ویڈیو کانفرنسنگ پلیٹ فارمز کا استعمال بہت زیادہ ہوا۔

’وہ آج بھی کام اور تعلیم میں بہت زیادہ استعمال ہوتے ہیں اور ذاتی طور پر ملاقاتوں کے مقابلے میں ان کے کچھ بھی ہیں۔ لیکن لوگ اکثر ویڈیو کانفرنس میٹنگوں سے تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں۔

’ہمارے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ویڈیو کال کے دوران آپ کو ہونے والا تھکاوٹ کا وہ احساس حقیقی ہے، اور اپنی تصویر یا ویڈیو دیکھ کر یہ اور بھی تھکا دینے والا ہوجاتا ہے۔ صرف مرر امیج کو بند کرنے سے ورچوئل میٹنگوں میں تھکاوٹ دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق