ستائیس ستمبر کو امریکہ کے شہر نیو یارک میں پاکستان بمقابلہ بھارت ہے۔ ایک مقابلہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اندر ہو گا اور دوسرا مقابلہ اقوام متحدہ کی عمارت کے باہر ہو گا جہاں دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف مظاہروں کا بھی انعقاد کیا گیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار نے نیو یارک میں بھارتی صحافیوں سے ملاقات کی اور کشمیر سمیت پاکستان بھارت تعلقات پر بات چیت کی۔ کچھ بھارتی صحافیوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ بھارت نے جو کرنا تھا کر لیا ہے وہ اب کشمیر کا نام کیوں لیں گے؟
ایک بھارتی صحافی نے کہا: ’بھارت کی تو یہ کوشش ہے کہ یہ معاملہ کسی طرح دب جائے اور اس پہ بات ہی نہ ہو۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد وادی میں رہنے والے بھی حالات سے سمجھوتا کر لیں گے۔‘
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں کیا کرنے والے ہیں اس پر بھارتی صحافیوں کا کہنا تھا: ’ایک بات تو بہت واضح ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کشمیر کا نام بالکل نہیں لیں گے اور نہ ہی پاکستان کا نام لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ نریندر مودی پاکستان کا نام لیے بغیر اُسے دہشت گرد ملک کہیں گے جیسے اُنہوں نے ہیوسٹن جلسے میں کیا۔‘
اس بارے میں ایک اور بھارتی صحافی نے تبصرہ کیا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی تقریر ہیوسٹن جلسے سے زیادہ مختلف نہیں ہو گی۔
بھارتی صحافیوں سے جب پوچھا گیا کہ 27 ستمبر کو بھارت کی جانب سے اقوام متحدہ کے باہر کوئی مظاہرہ کیا جائے گا تو انہوں نے کہا کہ جتنا بڑا پاکستان کا مظاہرہ ہو گا بھارت کا سپانسرڈ مظاہرہ اتنا بڑا نہیں ہوگا۔
ان کے مطابق اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان مخالف مظاہرے میں سکھ کمیونٹی بالکل شریک نہیں ہو رہی، انہوں نے اس میں شمولیت سے انکار کر دیا ہے۔ اس لیے صرف بلوچستان قوم پرست اور پشتون تخفظ موومنٹ کے لوگ پاکستان مخالف مظاہرے میں موجود ہوں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا: ’یہ تو اوپن سیکرٹ ہے کہ دونوں ممالک کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیاں مالی معاونت فارہم کرتی ہیں۔‘
بی بی سی ورلڈ سروس سے تعلق رکھنے والے بھارتی پنجاب کے سینیئر صحافی روبن سنگھ سے انڈپینڈنٹ اردو نے سوال کیا کہ کیا اقوام متحدہ کی عمارت کے باہر ہونے والے مظاہروں کا کوئی فائدہ بھی ہوتا ہے تو انہوں نے کہا کہ فائدہ تو یقیناً ہوتا ہے اور آج کل سوشل میڈیا کے دور میں زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ اب میڈیا بہت کنٹرول ہو گیا ہے۔ ’آج سے پانچ سال پہلے سب ممالک باہر ہونے والے مظاہروں کو دکھاتے تھے لیکن اب صرف متعلقہ ملک کا میڈیا ہی مظاہرے کی کوریج کرتا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ میڈیا صرف پاکستان میں کنٹرول نہیں ہوا بلکہ نریندر مودی کی دوبارہ حکومت آنے کے بعد بھارت میں بھی میڈیا میں چھانٹیوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور بھارت میں بھی ہزاروں صحافی بیروزگار ہو چکے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا: ’لگتا ہے صحافیوں کے معاملے میں پاکستان بھارت ایک صفحے پر ہیں۔‘
دوسری جانب پاکستان کی طرف سے27 ستمبر کے مظاہرے کی تیاری بھی بالکل مکمل ہے اور تقریباً 25 سے زائد تنظیمیں مل کر بھارت مخالف مظاہرے کا انعقاد کر رہی ہیں۔
شکاگو سے تعلق رکھنے والے کشمیر یکجہتی کونسل کے چئیرمین جاوید راٹھور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ آج ہی شکاگو سے نیو یارک پہنچیں ہیں۔ انہوں نے کہا: ’جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اقوام متحدہ میں تقریر کریں گے ہم اُس وقت باہر مظاہرہ کریں گے اور نعرے بازی کریں گے۔‘
انہوں نے بتایا کہ مظاہرے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں خصوصی شرٹس اور ٹوپیاں بنائی گئی ہیں جن پر ’فری کشمیر‘ لکھا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ افریقن امریکن اور سکھ کمیونٹی بھی ہمارے ساتھ مظاہرے میں شریک ہو گی۔
کینیڈا اور امریکہ کی دیگر ریاستوں سے بڑی تعداد میں لوگ مظاہرے میں شریک ہوں گے۔ جب اُن سے مظاہرین کی تعداد کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ کم از کم پانچ سے دس ہزار کے درمیان افراد اس میں شامل ہوں گی۔
بھارتی صحافی کے تبصرے کو مدنظر رکھتے ہوئے جب جاوید راٹھور سے پوچھا کہ آپ کے مظاہرے کو حکومت پاکستان یا خفیہ ایجنسیاں مالی معاونت فراہم کر رہی ہیں تو انہوں نے سختی سے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی جو امریکہ میں موجود ہے اُن سب نے مظاہرے کے لیے رقم فراہم کی ہے اور یہ سارا انتظام 25 تنظیموں نے مل کر کیا ہے۔
انہوں نے کہا: ’اس میں پاکستانی حکومت سے کوئی معاونت نہیں لی گئی اور نہ ہی ہم حکومت کی نمائندگی کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ ایک بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ ہے اس لیے امریکہ میں مقیم کمیونٹی خود سب کچھ کر رہی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ نیو یارک میں ان دو دنوں میں ہیلی کاپٹر بھی اڑے گا جو ’فری کشمیر‘ کا بینر ہوا میں لہرائے گا۔