پشاورہائی کورٹ نے اپنی ایک حالیہ فیصلے میں خیبر پختونخوا کے ادارہ برائے تحفظ ماحولیات کو رہائشی علاقوں سے موبائل ٹاورز ہٹانے کا حکم دیا ہے۔
اس فیصلے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ موبائل ٹاورز سے نکلنے والی شعاعیں انسانی صحت پر برے اثرات مرتب کرتی ہیں۔
دی انڈپینڈنٹ نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا واقعی موبائل ٹاورز کی شعاعوں کی صحت پر کوئی برے اثرات مرتب ہونے ہیں ہے یا نہیں۔
یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب پشاور کی ایک باسی محمد نعیم نے عدالت میں پیٹیشن دائر کی کہ رہائشی علاقوں میں ان ٹاورز کے سنگلز سے صحت پر برے اثرات مرتب ہورہے ہیں اور اس میں خاص کر اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ان شعاوں سے کینسر لاحق ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
محمد نعیم کے وکیل نورعالم خان نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ نے خیبر پختونخوا کے ادارہ برائے تحفظ ماحولیات کو بتایا کہ صوبے میں ٹاورز کے لیے این او سی جاری نہ کی جائیں۔
نور عالم کے مطابق عدالت نے بتایا کہ پشاور میں ۲۰ ایسے ٹاورز موجود ہے جو رہائشی علاقوں میں نصب ہے ان کو ہٹایا جائے۔
موبائل ٹاورز نصب کرنے کے لیے پہلے این او سی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات (انوارومینٹل پروٹیکشن ایجنسی) سے لی جاتی ہے۔
ای پی اے نے ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس وقت پشاورمیں 366 موبائل ٹاورز نصب ہیں جن میں 20 ایسے ہے جو رہائشی علاقوں سے 25 فٹ سے کم فاصلے پر نصب ہیں۔
تاہم رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ ٹاورز 2009 سے پہلے لگائے گئے تھے جس وقت قانون نہیں بنایا گیا تھا اور ای پی اے سے این او سی لینی کی ضرورت نہیں تھی۔
رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ 55 ٹاورز مسجد کے قریب، 26 سکول کے، اور 195 رہائشی علاقوں کے قریب نصب ہیں۔ یہ 100 میٹر سے کم فاصلے پر نصب ہیں جو بین الاقوامی معیار سے متصادم ہے۔
موبائل ٹاورز رہائشی علاقوں سے کتنی دور لگانے چاہئیں؟
انٹرنیشنل کمیشن ان نان ایونائزنگ ریڈییشن پرٹیکشن جو تابکاری شعاوں کے انسانی جسم پر اثرات پر کام کرتا ہے اس کمیشن کی سفارشات پاکستان میں بھی نافذ العمل ہیں. ان گائڈلائز کے مطابق موبائل ٹاورز رہائشی علاقوں سے کم از کم 25 فٹ کے فاصلے پر نصب کرنا ضروری ہے جس کی وجہ سے صحت پر برے اثرات کم ہو سکتے ہیں۔
پشاور ہائی کورٹ نے اسی بنیاد پر حکومت کو بتایا کہ پورے صوبے میں رہائشی علاقوں میں نصب ٹاورز کو ہٹایا جائے کیونکہ انسانی صحت پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔
کیا تابکاری شعائیں کینسر کا سبب بنتی ہے؟
کمیشن کی انٹرنیشنل ہدایات میں لکھا گیا ہے کہ تابکاری شعاوں کے نتیجے میں کینسر کے حوالے سے مخلتف تحقیقات ہوئی ہیں لیکن ابھی تک یقین سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان شعاعوں سے کینسرلاحق ہو سکتا ہے۔
‘تابکاری شعاوں کا کینسر کی موجب بننے کے حوالے سے ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے کیونکہ اب تک کے معلومات اور تحقیقات کے مطابق اس سے کینسر کا خطرہ بہت کم ہے۔’
تاہم کمیشن کے گائڈلائنز میں یہ کہا گیا کہ ان شعاوں کے انسانی پٹھوں، شریانوں پر برے اثرات اور بچوں میں لیکیومیا یا خون کے سرطان کے بارے میں شواہد موجود ہیں لیکن اس بارے میں بھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
امیریکن کینسر سوسائٹی جو کینسر کی تشخیص اور علاج پر کام کرنے والے اداروں میں ایک معتبر تنظیم سمجھی جاتی ہے۔ اس نے اپنی ایک تحقیق میں بھی لکھا ہے کہ موبائل ٹاورز سے نکلی شعاوں سے کینسر کا خطرہ بہت کم ہے۔
امریکن کینسر سوسائٹی کیا کہتی ہے؟
اس بات کو معلوم کرنے کے لیے کہ آیا واقعی حاملہ خواتین کے جن کے مکان موبائل ٹاورز کے قریب ہیں ان کے بچوں میں سرطان کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، اس بارے میں سوسائٹی نے تحقیق کی۔
انہوں نے یہ تحقیق برطانیہ میں 1000 بچوں کی نمونے لے کر کی۔ تحقیق ایک ہزار سرطان سے لڑنے والوں بچوں کا بغیر کینسر کے بچوں کے ساتھ موازنہ کیا گیا۔
تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ جو بچے کینسر کی بیماری میں مبتلا تھے ان کے مکان موبائل ٹاورز سے قریب نہیں تھے۔
اسی ادارے نے اپنے ایک اور تحقیق میں 2600 کینسر سے لڑنے والے بچوں کے نمونے لے کر کی۔ اس تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ جو بچے موبائل ٹاورز کی شعاوں کو زیادہ ایکسپوز تھے ان میں یہ بیماری لگنے کا رسک زیادہ تھا۔
تاہم تحقیق میں یہ کہا گیا کہ یہ قریبی ٹاورز سے نکلی ہوئی شعاوں پر منحصر ہے کہ وہ کتنی زیادہ طاقت ور ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں ہے کہ ٹاورز ان کے مکانات یا سکولوں سے کتنی فٹ کے فاصلے پر نصب ہے۔