برفیلا ’زمین نما‘ سیارہ دریافت، خلائی مخلوق کا مسکن ہوسکتا ہے

امریکی خلائی ادارے ناسا کی ویب ٹیلی سکوپ کی مدد سے سائنس دانوں نے ایک ایسی برفیلی ’سپر ارتھ‘ دریافت کی ہے، جہاں ایلینز موجود ہو سکتے ہیں۔

معتدل ایل ایچ ایس 1140 بی (بائیں) مکمل طور پر برف میں ڈھکا ہوا دنیا ہو سکتا ہے (بینوئٹ گوجین، یونیورسٹی ڈی مونٹریال)

امریکی خلائی ادارے ناسا کی ویب ٹیلی سکوپ کی مدد سے سائنس دانوں نے ایک ایسی برفیلی ’سپر ارتھ‘ دریافت کی ہے، جہاں خلائی مخلوق (ایلین) موجود ہو سکتی ہے۔

جب محققین نے پہلی بار اس سیارے کو دریافت کیا، جسے ایل ایچ ایس 1140 بی کے نام سے جانا جاتا ہے، تو انہوں نے سوچا کہ یہ قریبی گیس والے سیارے نیپچون کے بہت چھوٹے ورژن کی طرح ہو سکتا ہے۔

لیکن ناسا کے اعداد و شمار کو استعمال کرتے ہوئے نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اس میں ایک فضا اور شاید مائع پانی بھی موجود ہو سکتا ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ اس وجہ سے یہ ایلینز کی تلاش کے لیے زیادہ امید افزا مقامات میں سے ایک بن سکتا ہے۔

ایل ایچ ایس 1140 بی ایک کم کمیت والے سرخ بونے ستارے کے گرد چکر لگاتا ہے، جو ہمارے اپنے سورج کے سائز کا تقریباً پانچواں حصہ ہے۔ یہ سائنس دانوں کے لیے دلچسپ ہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ یہ ’گولڈی لاکس زون‘ میں ہو سکتا ہے، جہاں یہ نہ تو اپنے ستارے کے بہت قریب ہے اور نہ ہی بہت دور اور اس لیے اس میں مائع پانی ہو سکتا ہے۔

مائع پانی کو زندگی کے لیے بنیادی ضروریات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، کم از کم جیسا کہ زمین پر موجود ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اپنی تحقیق سے سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ دنیا کی کمیت کا 20 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ اس طرح یہ ایک بہت بڑی برف کی گیند جیسی لگ سکتی ہے، لیکن سیارے کے سورج کے سامنے والے حصے میں ایک سمندر ہے۔

یونیورسٹی آف ڈی مونٹریال سے تعلق رکھنے والے اس نئی تحقیق کے سربراہ چارلس کیڈیوکس کا کہنا ہے کہ ’اس وقت معلوم تمام معتدل سیاروں میں سے ایل ایچ ایس 1140 بی کے بارے میں ہمارا سب سے زیادہ امکان ہے کہ ہم کسی دن اپنے شمسی نظام سے باہر کسی سیارے کی سطح پر مائع پانی کی موجودگی کی تصدیق کر سکیں۔‘

لیکن محققین کو اس بات کی تصدیق کرنے کے لیے بہت زیادہ وقت درکار ہوگا کہ آیا اس دنیا میں واقعی زمین جیسی فضا اور مائع پانی موجود ہے یا نہیں۔ حتیٰ کہ ناسا کی ویب ٹیلی سکوپ کو بھی اپنی بے مثال حساسیت کے ساتھ اسے دیکھنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑے گی، لیکن انہیں امید ہے کہ مزید کام سے یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی موجودگی کی نشاندہی کرنے والے سگنل پکڑ سکے گی، جس سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی موجودگی کی نشاندہی ہوگی، جس سے یہ پتہ چل سکے گا کہ یہ قابل رہائش ہے۔

اس کام کی نگرانی کرنے والے پروفیسر رینے ڈویون نے کہا کہ ’ایک معتدل سیارے پر زمین جیسا ماحول تلاش کرنا ویب ٹیلی سکوپ کے لیے ایک مشکل چیلنج ہے۔ یہ ممکن ہے، لیکن ہمیں مشاہدہ کرنے کے لیے بہت زیادہ وقت درکار ہے۔

’نائٹروجن سے بھرپور ماحول کے موجودہ اشارے کی تصدیق کے لیے مزید اعداد و شمار درکار ہیں۔ ہمیں اس بات کی تصدیق کرنے کے لیے کم از کم ایک اور سال کے مشاہدات کی ضرورت ہے کہ ایل ایچ ایس 1140 بی میں ایک فضا ہے اور ممکنہ طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کا پتہ لگانے کے لیے مزید دو یا تین سال چاہییں۔‘

نتائج بیان کرنے والا ایک مقالہ ’ٹرانسمیشن سپیکٹرسکوپی آف دی ہیبیٹیٹ ایبل زون ایکسوپلینٹ ایل ایچ ایس 1140 بی ود جے ڈبلیو ایس ٹی / این آئی آر آئی ایس ایس‘ آر ایکس آئی وی پر دستیاب ہے اور جلد ہی ایسٹروفزیکل جرنل لیٹرز میں شائع ہوگا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق