کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینیئرنگ ورکس لمیٹڈ کے حکام کے مطابق سکھر بیراج کے ٹوٹنے والے دو دروازوں کی جگہ 50 ٹن وزنی دو نئے دروازوں کی تنصیب شروع ہوگئی ہے، جسے 20 جولائی 2024 تک مکمل کرلیا جائے گا۔
کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینیئرنگ ورکس لمیٹڈ کے جنرل مینیجر کمانڈر (ر) محمود علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’20 جون کو سکھر بیراج کے گیٹ نمبر 45 اور 47 ٹوٹ جانے کے بعد محکمہ آب پاشی نے رابطہ کیا تو ہم نے ایک قومی ادارے کی حیثیت سے اس اہم بیراج کو بچانے کے اقدامات کے تحت فوری طور پر نئے دروازوں کی تعمیر شروع کردی۔
’ہمارے ادارے نے گذشتہ سال سکھر بیراج کے چھ دروازے تبدیل کیے تھے، اسی وجہ سے ہمارے پاس اس کام کا تجربہ تھا اور ہمارے پاس اس کی ڈرائنگ وغیرہ بھی موجود تھی۔ اس بنا پر ہم نے ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کیا۔‘
کمانڈر (ر) محمود علی کے مطابق یہ فولادی گیٹس 23 فٹ اونچے ہیں جبکہ پہلے لگے ہوئے گیٹ 21 فٹ بلند تھے۔
انہوں نے بتایا کہ سندھ کے وزیرِ آب پاشی جام خان شورو اور سیکریٹری آب پاشی ظریف کھیڑو نے اس ہنگامی صورت حال سے موثر انداز میں نمٹنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے، جس سے یہ بیراج بھی محفوظ رہا اور سندھ بھر میں کاشت کاروں کو بھی جلد پانی کی فراہمی ممکن ہوئی۔
’ہمیں یہ ذمہ داری دی گئی، وہ ہم نے قبل از وقت ہی مکمل کرلی کیونکہ اب ایک ایک دن بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ سیلابی صورت حال شروع ہونے سے قبل اسے مکمل کرنا بہت ضروری ہے۔‘
سندھ کے وزیر آب پاشی جام خان شورو نے 21 جون کو انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا تھا کہ سکھر بیراج کے گیٹ نمبر 47 کو ’درخت جیسی کسی بھاری چیز کی ٹکر‘ سے نقصان پہنچا، جس کے بعد بیراج پر ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے اس کا پُل ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا تھا۔
انہوں نے مزید بتایا تھا کہ ایک اور گیٹ کو بھی جزوی طور پر نقصان پہنچا۔
سکھر بیراج پر ان دروازوں کی تنصیب کے کام کی نگرانی کرنے والے کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینیئرنگ ورکس کے مینیجر آؤٹ ڈور محمد ریاض نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’ہم یہاں 24 گھنٹے مختلف شفٹوں میں کام کر رہے ہیں تاکہ بروقت کام مکمل ہوسکے۔ یہ دروازے چھ مختلف حصوں میں کراچی شپ یارڈ میں تیار ہو کر سکھر بیراج پر لایا جا رہے ہیں، جنہیں یہاں فٹ کیا جائے گا۔‘
کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینیئرنگ ورکس لمیٹڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر ریئر ایڈمرل سلمان الیاس نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’بحثیت قومی ادارہ ہم نے سکھر بیراج جیسے پاکستان کے اثاثے کو بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کیے۔ ہمارے ماہر انجینیئرز اور کارکنوں نے اس قومی کاز کو بہت جانفشانی سے انجام دیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا: ’ہمارا ادارہ ملک میں آبدوزوں اور جہازوں سمیت سٹیل کی اشیا بنانے میں خاصی مہارت رکھتا ہے۔ ہمارے ادارے کو بیراجوں کے دروازے بنانے کا بہت تجربہ ہے اور اس وقت گڈو بیراج میں جو 64 دروازے ہیں، وہ ہمارے ادارے نے بنا کر دیے ہیں۔‘
بقول سلمان الیاس: ’2022 میں بھی سکھر بیراج کے چھ فولادی گیٹس ہمارے ادارے نے فراہم کیے تھے، جو بہت بہتر انداز میں کامیابی سے کام کر رہے ہیں۔ ہر گیٹ کا وزن اندازاً 50 ٹن ہوتا ہے، جسے دورانِ تیاری اور بعد میں مختلف ٹیسٹوں سے گزار کر کلیئر کیا جاتا ہے۔
’ہم کوالٹی کنٹرول پر بہت سختی سے عمل کرتے ہیں، اسی وجہ سے گیٹ کی اگر بروقت سروس کی جائے تو یہ 50 سال تک کارآمد رہ سکتا ہے۔‘
سکھر بیراج صوبہ سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کے قریب دریائے سندھ پر بنا ہوا ہے۔ یہ دریائے سندھ پر بننے والا پہلا بیراج ہے، جس کی تعمیر کا کام برطانوی دور حکومت کے دوران 1923 میں شروع کیا گیا تھا۔
اس کی تعمیر میں نو سال لگے اور اس کا مقصد آب پاشی اور سیلاب سے بچاؤ ہے۔
اُس وقت اس بیراج کا نام بمبئی کے اس وقت کے گورنر جارج امبروز لائیڈ کے نام پر لائیڈ بیراج رگھا گیا تھا، جو بعد میں تبدیل کرکے سکھر بیراج رکھا گیا۔
محکمہ آب پاشی کے ریکارڈ کے مطابق سکھر بیراج دنیا کا سب سے بڑا آب پاشی کا نظام ہے، جس سے سات بڑی نہریں نکلتی ہیں، جن میں سے چار نارا کینال، روہڑی کینال، خیرپور فیڈر ایسٹ اور خیرپور فیڈر ویسٹ بیراج کے بائیں جانب، جب کہ دائیں طرف سے تین نہریں دادو کینال، رائس کینال اور بلوچستان کو پانی فراہم کرنے والی نارتھ ویسٹ کینال شامل ہیں۔