’درخت کی ٹکر‘ سے سکھر بیراج کے گیٹ کو نقصان: صوبائی وزیر

سندھ کے وزیر آبپاشی جام خان شورو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہم نے ویڈیو میں دیکھا ہے کہ درخت کی شکل کی کوئی بھاری چیز ٹکرائی ہے، جس سے دروازے کو نقصان پہنچا۔‘

دریائے سندھ پر واقع سکھر بیراج کا ایک منظر (انڈپینڈنٹ اردو)

سندھ کے وزیر آبپاشی جام خان شورو کے مطابق گذشتہ رات سکھر بیراج کا گیٹ نمبر 47 کو ’کسی بھاری چیز‘ کی ٹکر سے نقصان پہنچا ہے، جس کے بعد بیراج پر ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے اس کی پُل ٹریفک کے لیے بند کردی گئی ہے۔ 

عالمی بینک کے تعاون سے صوبہ سندھ کے محکمہ آبپاشی نے اپریل میں سکھر بیراج کی مرمت کے علاوہ تمام دروازے تبدیل کرنے کا کام اپریل سے جاری تھا۔ دوران مرمت ہی بیراج کے گیٹ کو نقصان پہنچا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے جام خان شورو نے کہا : ’گیٹ نمبر 47 کو نقصان پہنچنے کے بعد بیراج کے تمام دروازے کھول دیے گئے ہیں تاکہ باقی گیٹوں پر پانی کے دباؤ کو کم کرنے کے علاوہ دیکھا جا سکے کہ 47 کو کتنا نقصان پہنچا ہے۔ 

’اس وقت بیراج میں پانی موجود ہونے کے باعث گیٹ کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ پانی کم ہونے کے بعد گیٹ کا جائزہ لینے کے علاوہ اس کو آبپاشی کے ماہرین اور چینی انجنیئرز کی مدد سے نیا گیٹ لگانے کا کام شروع کیا جائے گا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’گیت نمبر 47 کے علاوہ گیٹ نمبر 43 کو بھی جزوی نقصان پہنچا ہے۔ مگر پانی ہونے کے صورت میں ابھی نقصان کا تخمینہ لگانا ممکن نہیں۔ ہم نے ویڈیو میں دیکھا ہے کہ درخت کی شکل کی کوئی بھاری چیز ٹکرائی ہے، جس سے دروازے کو نقصان پہنچا۔‘

اپریل 2024 سے سکھر بیراج کے مرمت کا کام ’ری ہیبیلیٹیشن اینڈ ماڈرینائزیشن پراجیکٹ‘ کو محکمہ آبپاشی سندھ کا ذیلی ادارہ ’سندھ بیراجز امپروومنٹ پراجیکٹ‘ دیکھ رہا ہے۔

اس منصوبے کے تحت دریائے سندھ پر تعمیر ہونے والے سب سے پہلے اور تاریخی سکھر بیراج کی مرمت اور کل 66 دروازوں میں سے 56 دروازے تبدیل کیے جائیں گے۔

محکمہ آبپاشی کے ریکارڈ کے مطابق سکھر بیراج پر مرمت کا یہ کام 32 سال بعد ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے 1987 میں شروع ہونے والا مرمت کا کام 1992 میں ختم ہوا تھا۔

جام خان شورو کے مطابق سکھر بیراج کی مرمت کا کام 2028 تک مکمل ہو گا۔

ایک سوال کے جواب میں جام خان شورو نے کہا : ’ہمارے محکمے نے 2018 میں سکھر بیراج کا ایک سروے کرایا تھا، جس میں بتایا گیا کہ بیراج کے تمام دروازے زبوں حالی کا شکار ہیں اور مرمت نہ ہونے کی صورت میں بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد ہی مرمت کا کام شروع کیا گیا۔‘

جام خان شورو کے مطابق نقصان کا جائزہ لینے اور مرمت کرنے کے لیے سکھر بیراج کے تمام گیٹ کھولنے کے باعث بیراج کا ’پانڈ لیول‘ کم ہو گیا ہے، جس کے باعث بیراج کے دائیں اور بائیں جانب نکلنے والی نہروں میں بھی پانی کا بہاؤ کم ہے۔

محکمہ آبپاشی کے ریکارڈ کے مطابق سکھر بیراج دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی کا نظام ہے، جس سے سات بڑی نہریں نکلتی ہیں، جن میں چار بشمول نارا کینال، روہڑی کینال، خیرپور فیڈر ایسٹ اور خیرپور فیڈر ویسٹ بیراج کے بائیں جانب، جب کہ دائیں طرف سے تین نہریں دادو کینال، رائس کینال اور بلوچستان کو پانی فراہم کرنے والی نارتھ ویسٹ کینال شامل ہیں۔

سکھر بیراج کی تعمیر کے وقت اس بیراج کے کمانڈ ایریا یعنی جہاں اس بیراج سے آبپاشی کے لیے پانی پہنچتا ہے وہ 80 لاکھ ایکڑ زمین تھی، جس میں بعد میں کافی اضافہ ہوا۔

گذشتہ تین دہائیوں سے سکھر بیراج کی رپورٹنگ کرنے والے سکھر کے صحافی ممتاز بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس وقت سکھر بیراج کے کمانڈ ایریا میں خریف کے فصلوں کی بوائی عروج پر ہے اور ایسے میں بیراج کے گیٹ کو نقصان کے باعث نہروں میں پانی کی کمی سے سندھ کی زراعت کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ممتاز بخاری کے مطابق : ’عام طور سکھر بیراج پر پانی کی سطح میں جون یا جولائی میں مون سون بارشوں کے بعد اضافہ ہوتا ہے، مگر اس سال پانی جلدی آنے کے باعث کاشت کاروں نے چاول کی کاشت بڑے پیمانے پر کی ہے۔

’اگر وقت پر پانی نہ ملا تو کاشت کاروں کے علاوہ ملک کو بھی نقصان ہو سکتا ہے۔ زرعی نقصان کے ساتھ سکھر بیراج پر سِلٹ جمع ہونے کا بھی خدشہ ہے، جس کے باعث آنے والے دنوں میں بیراج میں پانی کی گنجائش میں کمی ہو گی۔‘

ممتاز بخاری کے مطابق 1981 میں اس طرح ایک گیٹ کو نقصان پہنچا تھا، جس کے بعد بیراج کی مرمت کی گئی تھی۔

سکھر بیراج پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے تیسرے بڑے شہر اور کراچی کے بعد دوسرے بڑے معاشی مرکز سکھر کے قریب دریائے سندھ پر بنا ہوا ہے۔ سکھر بیراج درائے سندھ پر بننے والا پہلا بیراج ہے جس کے تعمیر کا کام برطانوی دور حکومت کے دوران 1923 میں شروع کیا گیا تھا۔

اس کی تعمیر میں نو سال لگے اور اس کا مقصد آبپاشی اور سیلاب سے بچاؤ ہے۔

اس وقت اس بیراج کا نام بمبئی کے اس وقت کے گورنر جارج امبروز لائیڈ کے نام سے لائیڈ بیراج رگھا گیا تھا، جو بعد میں تبدیل کرکے سکھر بیراج رکھا گیا۔

دریائے سندھ پر اس وقت چھ بیراج ہیں، جن میں دریا کے اوپری بہاؤ میں جناح بیراج ہے، جو پنجاب میں کالاباغ کے مقام پر قائم ہے۔ دوسرا بیراج چشمہ بیراج جو پنجاب کے ضلع میانوالی میں بکھڑا شریف کے نزدیک بنا ہے۔

تیسرا تونسہ بیراج ہے جو کہ کالاباغ ہیڈورکس سے 80 میل جنوب کی طرف دریائے سندھ پر واقع ہے۔

چوتھا بیراج سندھ کے ضلع کشمور کے نزدیک گڈو بیراج ہے، جب کہ پانچواں سکھر بیراج اور چھٹا کوٹڑی بیراج ہے، جو سندھ کے حیدرآباد اور جامشورو شہروں کے درمیاں دریائے سندھ پر 1955 میں تعمیر کیا گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان