سندھ کے وزیرآب پاشی جام خان شورو نے بتایا ہے کہ سکھر بیراج کے ٹوٹے ہوئے گیٹ نمبر 47 پر ’کوفر ڈیم‘ (Cofferdam) تعمیر کرکے بہنے والے پانی کو روک دیا گیا ہے اور بیراج سے نکلنے والے تمام کینالوں کو دوبارہ پانی کی فراہمی شروع کر دی گئی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں جام خان شورو نے کہا: ’پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ جون کے مہینے میں جب سکھر بیراج پر دریائے سندھ میں ایک لاکھ کیوسک پانی ہو، ایسے میں کوفر ڈیم بنا کر پانی روک کر کینالوں کو اتنی قلیل مدت میں دوبارہ پانی دے کر نئی تاریخ رقم کی گئی ہے۔‘
عالمی بینک کے تعاون سے صوبہ سندھ کے محکمہ آب پاشی نے اپریل 2024 میں سکھر بیراج کی مرمت کے علاوہ تمام دروازے تبدیل کرنے کا منصوبہ ’ری ہیبی لیٹیشن اینڈ ماڈرنائزیشن پراجیکٹ‘ شروع کیا تھا، جس پر محکمہ آب پاشی کے ذیلی ادارے ’سندھ بیراجز امپروومنٹ پراجیکٹ‘ نے کام شروع کیا۔
دوران مرمت 20 جون کی شام کو سکھر بیراج کا گیٹ نمبر 47 ٹوٹ کر گر گیا، جس کے حوالے سے حکام نے بتایا کہ یہ گیٹ پانی کے ساتھ بہہ کر آنے والے ’ایک درخت کی ٹکر‘ سے گرا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جس کے بعد محکمہ آب پاشی نے سکھر بیراج پر ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے بیراج کے اوپر گزرنے والی سڑک کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کردیا تھا جبکہ بیراج کے تمام دروازے کھول دیے گئے تھے تاکہ باقی گیٹوں پر پانی کے دباؤ کو کم کرنے کے علاوہ دیکھا جا سکے کہ گیٹ نمبر 47 کو کتنا نقصان پہنچا۔
اسی طرح سکھر بیراج سے نکلنے والی تمام سات کینالوں کو پانی کی فراہمی بھی روک دی گئی تھی، جن میں سے چار یعنی نارا کینال، روہڑی کینال، خیرپور فیڈر ایسٹ اور خیرپور فیڈر ویسٹ بیراج کے بائیں جانب جب کہ دائیں طرف تین نہریں دادو کینال، رائس کینال اور بلوچستان کو پانی فراہم کرنے والی نارتھ ویسٹ کینال شامل ہیں۔
اس وقت سندھ میں خریف کی فصلوں کی بوائی ہو رہی ہے اور کینالوں کا پانی بند کرنے پر تنقید کی جا رہی تھی کہ سندھ کی زراعت کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔
جام خان شورو کے مطابق: ’پانچ سے چھ دن کی قلیل مدت میں نہ صرف گیٹ نمبر 47 سے بہنے والے پانی کا بہاؤ کوفر ڈیم بنا کر بند کر دیا گیا بلکہ کینالوں میں دوبارہ پانی شروع کرکے خریف کی فصل کو بھی بچا لیا گیا۔‘
کوفر ڈیم کیا ہے؟
سکھر بیراج کے ریٹائرڈ انجینیئر ستار ساریو کے مطابق کوفر ڈیم (Cofferdam) ایک عارضی واٹر ٹائٹ ڈھانچہ ہوتا ہے، جو پانی کے اندر ایک مخصوص جگہ کو خشک کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے تاکہ وہاں کسی قسم کا مرمتی یا تعمیری کام کیا جاسکے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ستار ساریو نے بتایا: ’کسی نہر، ندی یا سمندر میں نئے پل کی تعمیر کرنے یا پہلے سے موجود پل کی مرمت کرنے کے لیے اس حصے کو خشک کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ انجینیئر اور مزدور مشینری کے ساتھ تعمیر یا مرمت کا کام کرسکیں۔ پانی کے اندر مخصوص جگہ کو خشک کرنے کے لیے ڈیم کی صورت میں بنائے جانے والے دھانچے کو کوفر ڈیم کہا جاتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ ڈھانچہ بنیادی طور پر پل، ڈیم یا دیگر آبی ڈھانچوں کی تعمیر یا مرمت کے دوران استعمال ہوتا ہے۔ کوفر ڈیم کے اندر کا پانی نکال کر خشک کیا جاتا ہے، جس سے مزدور اور مشینری آسانی سے کام کر سکتے ہیں۔‘
ستار ساریو کے مطابق کوفر ڈیم عموماً سٹیل، لکڑی یا کنکریٹ کے پینلز پر مشتمل ہوتا ہے جو پانی کو اندر آنے سے روکتا ہے۔ اس ڈیم کی تعمیر کے لیے مٹی کے بجائے ریت استعمال کی جاتی ہے کیوں کہ مٹی پانی کے ساتھ بہہ جاتی ہے، جب کہ ریت مضبوط بن جاتی ہے۔
سکھر بیراج کے گیٹ 47 پر کوفر ڈیم کیسے بنایا گیا؟
’سندھ بیراجز امپروومنٹ پراجیکٹ‘کے ڈائریکٹر غلام محی الدین مغل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’گیٹ 47 گرنے کے بعد پانی مسلسل بہہ رہا تھا، جس کی وجہ سے گیٹ کی مرمت یا نیا گیٹ لگانا ممکن نہیں تھا۔ کوئی اور طریقہ نہیں تھا جس سے پانی کے بہاؤ کو روکا جائے، اس لیے کوفر ڈیم بنایا گیا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’بیراج کے کسی دروازے کو تبدیل یا مرمت کرنے کے لیے دسمبر کے آخری ہفتے کا انتخاب کیا جاتا ہے، اس وقت سالیانہ وارا بندی ہوتی ہے اور دریا میں پانی کم ہوتا ہے، مگر یہ ایک حادثہ تھا، اس لیے جون میں دریائے سندھ میں پانی کے بڑے بہاؤ کے باجود کوفر ڈیم بنانا پڑا۔‘
وزیر آب پاشی جام خان شورو کے مطابق یہ کوفر ڈیم سکھر بیراج کے ڈاؤن سٹریم میں گیٹ نمبر 47 کے سامنے بنایا گیا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سکھر بیراج کے گیٹ کے لمبائی 60 اور اونچائی 21 فٹ ہے، جس کا مطلب ہے کہ کوفر ڈیم بنانے کے لیے 21 فٹ کھڑے پانی میں بوریوں کی مدد سے بند بندھا گیا، جو انتہائی مشکل کام تھا۔
جام شورو کے مطابق کرین کی مدد سے ڈھائی ٹن وزنی ریت کی تین ہزار بوریوں میں سے ہر ایک بوری کو 21 فٹ پانی کے اندر لے جاکر کوفر ڈیم باندھا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ ’شپ یارڈ والے نیا گیٹ بنا رہے ہیں جو ہمیں 20 جولائی تک مل جائے گا، جس کے بعد نیا گیٹ لگا دیا جائے گا۔‘
غلام محی الدین مغل کے مطابق کوفر ڈیم کی تعمیر کے بعد ’کیسن گیٹ‘ کی مدد سے بند کر دیا جائے گا۔ (کیسن گیٹ کسی بھی بیراج پر ایک حرکت کرنے والا گیٹ ہے، جسے بیراج پر کسی گیٹ کی مرمت یا تبدیل کرنے کے لیے عارضی گیٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے)۔
غلام محی الدین مغل کے مطابق: ’کوفر ڈیم بنانے کے بعد ڈیم کے اندر پانی کو پمپ کرکے باہر نکالا جا رہا ہے، جس کے بعد انجینیئر پہلے پرانے گیٹ کے ٹوٹے ہوئے حصوں کو نکالیں گے اور پھر گیٹ نمبر 47 سے ٹوٹ کر نیچے گرنے والے پرانے گیٹ کی مرمت کرکے اسے عارضی طور پر لگا دیا جائے، جب نیا گیٹ آجائے گا تو اس کے بعد اسے لگا دیا جائے گا۔‘
نیا گیٹ کراچی شپ یارڈ میں بنایا جا رہا ہے۔ یہ 21 فٹ اونچا اور 60 فٹ لمبا گیٹ کراچی سے سکھر بیراج کیسے لایا جائے گا؟ اس کے جواب میں غلام محی الدین مغل نے بتایا کہ ’یہ گیٹ چھ حصوں میں بنایا جاتا ہے، جسے باآسانی کراچی سے سکھر بیراج لاکر لگا دیا جائے گا۔‘
اس منصوبے کے تحت دریائے سندھ پر تعمیر ہونے والے سب سے پہلے اور تاریخی سکھر بیراج کی مرمت اور کل 66 دروازوں میں سے 56 دروازے تبدیل کیے جائیں گے۔
سکر بیراج پر نئے خودکار دروازے لگیں گے
سکر بیراج پر لگے دروازے خودکار نظام کے بجائے ہاتھ سے کھولے اور بند کیے جاتے ہیں۔ بیراج کا ایک دروازہ اگر 80 ٹن وزن کا ہے تو اس کے دوسری طرف 80 ٹن کا وزن باندھا گیا ہے۔
گیٹ کو کھولنے یا بند کرنے لیے بیراج کا عملہ بیراج کے اوپر لگی مشینوں سے ہاتھ کی مدد سے دروازے کی دوسری جانب بندھے وزن کو نیچے کرکے گیٹ کو کھولتے یا بند کرتے ہیں۔
جام خان شورو کے مطابق: ’سکھر بیراج کی تعمیر کو تقریباً 100 سال ہوگئے ہیں۔ اب بیراج اتنا وزن برداشت نہیں کرسکتا، اس لیے اب جو نئے گیٹ لگائے جا رہے ہیں ان کی دوسری جانب متوازی وزن نہیں لگایا جائے گا۔
’ان نئے دروازوں کو متوازی وزن ہاتھ سے اوپر نیچے کرنے کے بجائے مشین سے اٹھایا جائے گا، جس سے بیراج پر وزن کم ہوگا اور اس کی زندگی میں اضافہ ہوگا۔‘