وینس فلم فیسٹیول دنیا کا قدیم ترین فلم فیسٹیول ہے اور اس کا شمار دنیا کے تین ممتاز ترین فلم فیسٹیولزمیں ہوتا ہے۔ رواں سال ستمبر میں وینس میں منعقدہ اس فیسٹیول میں پاکستان کے ایک فلم ساز صائم صادق کی بنائی ہوئی مختصر دورانیہ کی فلم ’ڈارلنگ‘ کو بہترین شارٹ فلم کے اعزاز سے نوازا گیا۔
اس کامیابی کی بعد صائم صادق پہلی مرتبہ پاکستان آئے تو انڈٰپینڈنٹ اردو نے ان سے ملاقات کی اور ان کی اس کامیابی کے ضمن میں ان سے پوچھا کہ آخر ’ڈارلنگ‘ ہے کیا؟ ان کا کہنا تھا کہ ’ڈارلنگ‘ انہوں نے کولمبیا یونیورسٹی سے اپنے مقالے کے لیے بنائی تھی، جس کی کہانی ایک 16 برس کے لڑکے اور ایک خواجہ سرا پر مبنی ہے۔
انہوں نے کہا: ’یہ خواجہ سرا لاہور میں جو ایک خاص مجرا کلچر ہے وہ اس میں اپنا نام بنانا چاہتی ہے جبکہ یہ لڑکا وہیں بطور ایک بیک گراونڈ ڈانسر کا کام کرتا ہے اور یہ فلم ان کی کوشش کے بارے میں ہے۔‘
صائم صادق نے بتایا کہ مجرا کلچر پر یہ مختصر فلم بنانے کا خیال انہیں اس وقت آیا جب انہوں نے ایک فیچر فلم ’گلاب‘ کا سکرپٹ لکھا تھا جس کی تیاریوں میں وہ ان دنوں مشغول ہیں اور جس کی کہانی بھی بڑی حد تک مجرا کلچر پر ہی مبنی تھی۔
صائم کے مطابق بطور ایک فلم ساز انہوں اس مجرا کلچر بہت دلکش معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ وہ کلچر ہے جسے ہم اپنے معاشرے میں تسلیم نہیں کرتے مگر یہ موجود ہے اور یہ بہت ہی شاندار مظاہرہ ہے ان خواتین کا جو خودمختار ہیں، اگرچہ ہم بحیثیتِ مجموعی انہیں اچھا نہیں سمجھتے۔
صائم کے مطابق انہیں گہری دلچسپی تھی کہ وہ خواتین وہاں کیسے کام کرتی ہیں کیونکہ یہ ان کی روزی ہے اور اختتام ہفتے کے علاوہ عام دنوں میں بھی وہاں جو شوز ہوتے ہیں وہ مکمل بھرے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ کون لوگ ہیں جو ایسے مجرے دیکھنے جاتے ہیں۔ تو وہاں سے انہوں نے اس پر تحقیق کا آغاز کیا اور اس کے نتیجے میں ’ڈارلنگ‘ وجود میں آئی اور انہیں امید ہے کہ اسی طرح وہ جلد ہی ’گلاب‘ بھی بنانے میں کامیاب ہوں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صائم نے بتایا کہ ان کی شروعات تو وینس فلم فیسٹیول سے بہت اچھی ہوئی ہے اور مختصر دورانیہ کی فلمیں عموماً فلمی میلوں کی حد تک ہی محدود رہتی ہیں، لیکن وہ چاہیں گے کہ وہ اس فلم کو کراچی اور لاہور سمیت ملک کے مزید شہروں میں نمائش کے لیے پیش کریں کیونکہ یہ ایک مکمل پاکستانی فلم ہے جو پاکستانیوں نے بنائی ہے اور اسے پاکستانیوں کو ضرور دیکھنا چاہیے۔
اپنی فیچر فلم ’گلاب‘ کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ابھی اس میں وقت ہے کیونکہ اس کے لیے پیسوں کا بندوست کرنے کی کوشش ہورہی ہے اور مزید بھی کچھ تکنیکی معاملات پر کام کیا جارہا ہے۔
حکومت پاکستان سے صائم کو کوئی امید نہیں ہے کہ وہ ان کے کام کو سراہے گی البتہ ان کے خیال میں اچھا ہو اگر حکومت کسی قسم کی سرپرستی کرے کیونکہ دنیا بھر میں حکومتیں فلمی صنعت کو بہت سراہتی ہیں۔
انہوں نے کہا: ’بہت سے ممالک (فلم پروڈیوسروں کو) ٹیکس میں چھوٹ فراہم کرتے ہیں، لیکن کیونکہ پاکستان میں فلم کو ویسے بھی کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا اس لیے یہاں یہ کام بہت پیچھے ہے لیکن اگر اس بڑی کامیابی کے بعد حکومت ایسا کرتی ہے تو یہ بہت ہی خوش آئند ہوگا۔‘
اپنی فلم کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ عموماً پاکستان سے دہشت گردی اور بدعنوانی جیسے موضوعات پر ہی فلمیں عالمی فلمی میلوں میں پیش کی جاتی ہیں اس لیے وہاں موجود افراد کو کافی خوشگوار حیرت بھی ہوئی تھی کہ پاکستان میں یہ سب بھی ہوتا ہے جس کا دنیا کو بالکل بھی معلوم نہیں، تو ایک طرح سے یہ ایک اچھا کام تھا۔
صائم نے بتایا کہ ان کے خیال میں فلم ساز کا کام ملک کی اچھی یا بری شبیہہ (امیج) دکھانا نہیں ہوتا کیونکہ فلم میکر کا کام معاشرے کا سچ دکھانا ہوتا ہے جس میں کچھ اچھا بھی ہوتا ہے اور کچھ برا بھی ہوتا ہے اور یہی وہ عمل ہے جس سے دنیا بھر کہ لوگ آپ سے جُڑ سکتے ہیں کیونکہ یہ ہر ملک میں ہوتا ہے جہاں بہت سے سب کلچر (subculture) موجود ہوتے ہیں۔