پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) اور ہم نیٹ ورک کے اشتراک سے بننے والے ڈرامے ’عہدِ وفا‘ کی دوسری قسط کل پیش کی جائے گی۔
عوام اس ڈرامے کا تقابل آئی ایس پی آر کے مشہور ڈرامے ’الفا براوو چارلی‘ سے کر رہے تھے اس لیے ان کو امیدیں بھی زیادہ تھیں۔ تاہم پہلی قسط دیکھنے کے بعد میری طرح کئی لوگوں کے دل ٹوٹ گئے ہوں گے جو اس میں کی گئی بے ڈھنگی اداکاری، بے جان مکالمے اور غیر حقیقی مناظر سے مایوس ہوئے ہیں۔
سیفی حسن کی ہدایت کاری میں بننے والے اس ڈرامے کو مصطفیٰ آفریدی نے تحریر کیا ہے جو اس سے قبل ہم ٹی وی سے ہی نشر ہونے والے مشہور ڈرامے ’آنگن‘ کے بھی مصنف ہیں۔
بظاہر یہ ڈرامہ پاکستان ملٹری اکیڈمی میں زیر تعلیم چار نوجوانوں کی دوستی پر مبنی ہے۔ احد رضا میر، وجاہت علی، احمد علی اکبر اور عثمان خالد بٹ بالترتیب سعد، شارق، شہریار اور شاہ زین نامی کیڈٹس کا کردار ادا کر رہے ہیں جو خود کو ’ایس ایس جی‘ یا ایس ایس گینگ کہتے ہیں کیوں کہ ان سب کے نام انگریزی حرف ایس سے شروع ہوتے ہیں۔
ڈرامے کا پہلا سین ہی غیر حقیقی اور مصنوعی دکھائی دیا جب ایس ایس گینگ کے ارکان ہاسٹل کی دیوار پھلانگنے کی کوشش میں پکڑے جاتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس قسط میں فوجی کالج کے وقار کو بھی پامال کیا گیا ہے جیسا کہ اس کے چار کرداروں نے ہاسٹل کے وارڈن صوبیدار میجر (ر) فردوس بیگ اور ان کے خاندان کے افراد کو ان کے ناموں کی وجہ سے تضحیک کا نشانہ بنایا۔
کھانے کی ٹیبل پر چار مرکزی کرداروں کا گروپ جسے وہ ایس ایس جی کہتے ہیں، وارڈن کے بیٹے کی والدہ کے نام کے حوالے سے نامناسب مذاق کرتے ہیں۔
ڈرامے میں اب تک دکھائی گئی خواتین کے کرداروں نے بھی خوب اوور ایکٹنگ کا مظاہرہ کیا، چاہے وہ کمرہ امتحان میں رانی کی نقل کا سین ہو یا دعا بننے والی علیزہ شاہ کا فاسٹ لین میں گاڑی رکوا کر ایک بزرگ جوڑے کو ٹریفک رولز پر لیکچر دینے کا طویل اور اکتاہٹ بھرا سین۔
دعا کا اپنے تایا ابو سے ملنے کا سین بھی کافی اوور ایکٹنگ سے بھرپور تھا جب کہ فٹ بال میچ کے دوران بے تُکے مکالموں اور ایک دوسرے پر لعنت بھیجنے سے ڈرامے کا معیار مزید گرتا ہوا محسوس ہوا۔
اس قسط میں سب سے حیران کن بات برگیڈیئر فراز کی شاہانہ زندگی اور ان بیٹے سعد کی گھر کے نوکر کو اپنے کتے ’زورو‘ کو کتا کہنے پر جوانی میں ہوش کھو دینے والی دھمکی تھی۔ ایک برگیڈیئر کے گھر کے دروازے پر دو فوجیوں کا کھڑا ہونا اور دروازہ کھولنا معیوب سا لگا۔
یہ وہی فراز ہیں جہنوں نے ’الفا براوو چارلی‘ میں کیپٹن فراز کا کردار بھی ادا کیا تھا۔
ڈرامے میں ہاسٹل وارڈن کے بیٹے خورشید کے کردار نے کچھ مزاح ضرور پیدا کیا جس سے بوریت میں کچھ کمی واقع ہوئی تاہم ہاسٹل اور میس کے ماحول پر یکسانیت حاوی رہی۔
منظر کشی اس ڈرامےکی ٹھیک رہی اور ڈرون کے ذریعے مری کے پُرفضا مقامات کی عکاسی دیکھ کر اچھا لگا۔
ابھی تو اس ڈرامے کی ایک ہی قسط آن ایئر ہوئی ہے اس لیے اس پر اتنی جلدی کوئی فیصلہ دینا ناانصافی ہو گی۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ الفا براوو چارلی جس نے اپنی پہلی قسط سے ہی ناظرین کو مکمل گرفت میں لے لیا تھا، اس کے مقابلے میں عہدِ وفا کی پہلی قسط اپنا اچھا تاثر چھوڑنے میں ناکام رہی ہے۔