رواں برس مس یونیورس پاکستان کا تاج نور زرمینہ نے پہنا ہے، جو اب پاکستان کی نمائندگی ماہ نومبر میں میکسیکو میں منعقد ہونے والے مس یونیورس کے مرکزی مقابلے میں کریں گی۔
29 سالہ نور زرمینہ اس لحاظ سے بہت خوش قسمت ہیں کہ رواں برس مس یونیورس کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عمر کی حد ختم کر دی گئی ہے۔ اس سے پہلے یہ معیاد 28 برس تھی۔
مس یونیورس پاکستان 2024 نور زرمینہ کے ساتھ انٹرویو میں انڈپینڈںٹ اردو نے ان کی توقعات، خدشات، اور مستقبل کے ارادوں کے بارے میں تفصیل جانی۔
نور زرمینہ نے کہا کہ یہ انٹرویو انگریزی میں کیا جائے کیونکہ وہ اس میں بہتر طور پر اپنے خیالات کا اظہار کرسکتی ہیں۔
اس لیے ہمیں یہ انٹرویو انگریزی میں کرنا پڑا۔ پہلے تو نور زرمینہ کو ہم نے مس یونیورس کا تاج پہننے کی مبارکباد دی اور سوال کیا کہ انہیں کیسا محسوس ہو رہا ہے۔
اس پر نور زرمینہ نے کہا کہ یہ ایک خواب کی طرح محسوس ہوتا ہے، یہ اس قسم کی چیز ہے جو آپ ٹی وی پر دیکھتے ہیں، آپ واقعی اپنی زندگی میں اس کا تجربہ کرنے کی توقع نہیں کرتے ہیں اور وہ خوش اور پُرجوش ہیں۔
پاکستان کے وفاقی وزیرِ اطلاعات عطااللہ تارڑ نے حال ہی میں ایک سوال کے جواب میں نور زرمینہ کو سراہا اور کہا تھا کہ کوئی بھی پاکستان کے امیج کے لیے کام کرے تو اس کی تعریف کرنی چاہیے۔
اس ضمن میں نور نے کہا کہ جب انہوں نے یہ دیکھا تو ’میں نے سکون کا سانس لیا تھا، جب میرے نام کا اعلان ہوا، تو میں دباؤ میں تھی کیونکہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس پر ردعمل کیسا آئے گا، اور میں ذہنی طور پر خود کو اس کے لیے تیار کر رہی تھی جو کچھ ایریکا رابن نے جھیلا تھا، لیکن حکومت میں شامل لوگوں کے بیان سن کر مجھے خوشی اور سکون ملا کہ وہ میری حمایت کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’جب ایریکا رابن اور میری ملاقات ہوئی اور اس نے مجھے ترغیب دی کی میں کوشش کروں اور درخواست دوں، اور پھر میں تھوڑی دیر سوچتی رہی اور میں نے سوچا کہ کیا مجھے یہ چاہیے؟ مجھے اس میں حصہ لینے کی ترغیب ملی کیونکہ میں واقعی میں لوگوں کے پاکستان کے بارے میں سوچنے کے انداز کو تبدیل کرنے کے بارے میں بہت جذباتی طور پر محسوس کرتی ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کے تصور کو عالمی سطح پر تبدیل کرنا چاہتی ہیں اور عوام اور میں ایک بہت عرصے تک بیرون ملک مقیم رہی ہوں اور میں نے دیکھا ہے کہ وہ ہمارے ملک کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور اس میں سے بہت کچھ منفی ہے اور ایسا نہیں ہے۔
’یہاں بہت کچھ اچھا ہوتا ہے جس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا اور میں نے اسے دیکھا ہے، اس لیے میں واقعی میں اس تصور کو تبدیل کرنا چاہتی ہوں اور لوگوں کو دکھانا چاہتی ہوں کہ یہ درست تاثر نہیں ہے۔‘
مس یونیورس کے آغاز کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ کہ خواتین کے لیے عمر کی حد ختم کر دی گئی ہے۔
29 سالہ نور زرمینہ اس لحاظ سے خود کو خوش نصیب سمجھتی ہیں اور اسے معجزہ قرار دیتی ہیں کہ یہ نا ہوتا تو وہ شاید یہاں نہیں ہوتیں۔
’مجھے لگتا ہے کہ جیسے کسی نے تمام مشکلات میرے سامنے سے ہٹا دی اور سب کچھ بالکل ٹھیک ہو گی۔ کیونکہ مس یونیورس میں حصہ لینے کا فیصلہ کرنا مشکل نہیں تھا، البتہ، مجھے کچھ ڈر تھا کہ جو میں نے ایریکا رابن کے ساتھ ہوتے دیکھا تھا، اس لیے میں ذہنی طور پر کچھ تیار بھی تھی، لیکن پھر سب ٹھیک ہوگیا۔‘
اپنے سفر کی روداد سناتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فارم بھرنے میں کافی وقت صرف ہوا، کیونکہ اس میں بہت سے اہم سوالات پوچھے گئے تھے، پھر جب 21 لڑکیوں میں انتخاب ہوا تو تیاری کی، کپڑے لیے، چلنے کا انداز دیکھا اور سیکھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں انہیں اپنی درخواست کی تیاری میں کئی گھنٹے لگ گئے تھےاور پھر ایک بار جب وہ ٹاپ 21 میں منتخب ہو گئی، تو انہوں نے کیٹ واک کی باقاعدہ تربیت لی، پچھلے مقابلوں کی یوٹیوب پر درجنوں ویڈیوز دیکھیں، ایک ساتھ اتنی زیادہ چیزیں ہو رہی تھیں کہ جیسے افراتفری مچی ہوئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مس یونیورس پاکستان کے مقابلوں میں نور زرمینہ نے کئی ڈیزائنرز کے کپڑے پہنے جن میں انصب جہانگیر کا گہرے سبز رنگ کا لہنگا تھا، یہ روایتی لباس کے راؤنڈ کے لیے تھا اور پھر انہوں نے عیسیٰ کیلی کا لباس پہنا تھا، یہ ایک ابھرتا ہوا برانڈ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ واقعی خوبصورت لباس تھا، میں نے اپنے فائنل گاؤن کے لیے زین ہاشمی کا بنایا ہوا لباس پہنا تھا، جب وہ دیکھا تھا تو وہ حیران رہ گئیں۔
نور زرمینہ میکسیکو جانے کے بارے میں کچھ نروس ہیں کہ وہاں آنے والی تمام خواتین بہت زیادہ تیاری سے آتی ہیں، ان کے پاس تیاری کا وقت کم ہے، لیکن وہ پرجوش ہیں۔
اس ضمن میں وہ کیٹ واک کے لیے بھر پور تیاری کرنا چاہتی ہیں، اور ایسے ملبوسات پہننا چاہتی ہیں جو پاکستان میں بھی مقبول ہوں مگر ان کا اپنا رنگ بھی نمایاں ہو، البتہ قومی لباس کے مرحلے میں وہ لہنگا چولی پہننے کا ارادہ رکھتی ہیں کیونکہ یہ لباس انہیں ہمیشہ ہی سے پسند رہا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ تیراکی کے لباس کے طور پر بکنی نہیں پہنیں گی بلکہ برکینی کا انتخاب کریں گی البتہ اس سلسلے میں وہ کچھ اچھا اور منفرد بنوانے کی خواہش مند ہیں۔
مس یونیورس پاکستان کے ناقدین کو جواب دیتے ہوئے نور زرمینہ کا کہنا تھا کہ وہ ان سے درخواست کرتی ہیں کہ اسے سمجھیں، کہ اس مقابلے سے کس قسم کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور اختلافات کو ایک طرف رکھ کر یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ یہ یہاں ملک کے لیے اچھا ہے، جس سے عالمی سطح پر پاکستان کے برینڈ امیج کو فائدہ ہوتا ہے، سیاحت بڑھتی ہے، اور دنیا کے لیے دروازے کھلتے ہیں۔
آخر میں نور نے کہا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ پاکستان میں خواتین کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی، انہیں جن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان میں سے ایک حوصلہ افزائی کی کمی ہے، خواتین اپنے ہنر کو پانے اور اپنے کیریئر کے مواقع تلاش کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس لیے وہ چاہتی ہیں کہ خواتین خود کو محفوظ سمجھیں اور وہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔
’چاہے وہ ایک خاندان ہو، چاہے وہ بینکر بننا ہو، مس یونیورس پاکستان بننا ہو، یا جو کچھ بھی ہو، میں وہ چاہتی ہیں کہ وہ جان لیں کہ وہ کچھ بھی کر سکتی ہیں۔‘