ایریکا رابن 72 سالہ تاریخ میں وہ پہلی پاکستانی ہیں جنہوں نے مس یونیورس کے عالمی مقابلے میں پاکستانی کی نمائندگی کی۔
25 سالہ ایریکا پیشے کے اعتبار سے ماڈل ہیں، جنہوں نے نومبر میں ایل سلواڈور میں ہونے والے مقابلے میں پاکستان کی نمائندگی کی اور ٹاپ 20 میں منتخب بھی ہوئیں۔
ایریکا کے واپس آتے ہی انڈپینڈنٹ اردو نے ان سے ملاقات کا اہتمام کیا اور ان کے احساسات اور تجربے کے بارے میں ہوچھا کہ ’پاکستان کی نمائندگی کرنا انہیں کیسا لگا؟‘
ایریکا رابن نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ’پاکستان کی نمائندگی کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے اور تاریخ کی پہلی مس یونیورس پاکستان منتخب ہونے سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ اب سے ہر سال ایک لڑکی ہمارے ملک کی نمائندگی عالمی سطح پر کیا کرے گی۔‘
انہوں نے بتایا کہ عالمی مقابلے میں شرکت سے پہلے ملکی سطح پر ایک مقابلہ ہوا تھا، جس میں ان کا انتخاب ہوا تھا اور اب ایک سال تک وہ اس اعزاز کی حامل رہیں گی۔
ایریکا کے مطابق: ’مس یونیورس پاکستان بننے کے بعد فلپائن میں میری تربیت ہوئی جو ایک مہینے پر محیط تھی، وہ ایک مشکل مرحلہ تھا کیونکہ پاکستان سے پہلے کوئی گیا نہیں تھا تو ہر چیز کو دیکھنا پڑتا تھا۔‘
ایل سلواڈور کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ’میں جب وہاں پہنچی تو صرف یہ دباؤ تھا کہ مجھے تربیت کے لیے بہت کم وقت ملا تھا۔‘
عالمی مقابلے کے بارے میں مزید تفصیلات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اپنے ملبوسات کا انتخاب میں نے بہت سوچ کر کیا تھا کیونکہ میں مس یونیورس کے عالمی مقابلے میں بطور ایریکا رابن نہیں بلکہ پاکستان کی نمائندے کے طور پر شریک تھی، اس لیے میری پوری کوشش کی کہ جس حد تک ممکن ہو، مکمل لباس ہی پہنا جائے۔‘
مس یونیورس کے مقابلے میں ایک نیشنل ڈریس کا مرحلہ بھی ہوتا ہے، ایریکا رابن نے اس مرحلے میں ’پہچان‘ نام کا ایک لباس پہنا تھا، جو معروف برانڈ ’کھاڈی‘ نے ان کے لیے خاص طور پر تیار کیا تھا۔
اس لباس میں پاکستان کے صوبوں کی مختلف ثقافتوں کی آمیزش تھی اور اس کے ساتھ دستی پنکھا بھی تھا، جو کافی دیدہ زیب تھا۔
تیراکی کا مختصر لباس نہ پہننے کے فیصلے کے بارے میں ایریکا رابن نے بتایا کہ ’میں پاکستان کی نمائندگی کر رہی تھیں، اس لیے میری خواہش تھی کہ پاکستان مجھے اپنائے۔ میں ایک پاکستانی ہوں اور مجھے اس بات کا بہت زیادہ خیال رکھنا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس کے لیے انہوں نے جو برکینی پہنی تھی، وہ مس یونیورس کے منتظمین نے ہی فراہم کی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان اور بحرین کی امیدواروں نے تیراکی کا مختصر لباس نہیں پہنا تھا‘ اور اس بات کا حوصلہ انہیں گذشتہ سال بحرین کی امیدوار کو دیکھ کر ہی ملا تھا۔
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ ’اس سے مقابلے میں نمبر نہیں کٹتے اور ہر ایک کی مرضی ہے کہ وہ کیا پہننا پسند کرتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مس یونیورس کے پہلے 20 یا ٹاپ 20 میں ایریکا کا نام شامل تھا، اس حوالے سے انہوں نے بتایا: ’اس لمحے میرا دل بہت زیادہ تیزی سے دھڑک رہا تھا اور جب مس پاکستان کہا گیا اور پاکستان کا پرچم دکھایا گیا تو وہ احساس بہت الگ ہوتا ہے، جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔‘
ٹاپ ٹین میں ایریکا کا نام شامل نہیں تھا، لیکن اس پر اںہیں افسوس نہیں ہے اور وہ امید رکھتی ہیں کہ ایک نہ ایک دن مس یونیورس کا تاج پاکستان آئے گا۔
ایریکا کے مطابق عالمی مقابلے کے دوران ان کی سب سے زیادہ دوستی مس انڈیا شویتا سے رہی اور وہ ان کا اچھا وقت تھا۔
انہوں نے بتایا: ’اس وقت انڈیا بمقابلہ پاکستان نہیں ہوتا بلکہ سب دوست ہی ہوتے ہیں۔‘
ایریکا رابن نے بتایا کہ جب ان کا نام سامنے آیا تھا تو لوگ سمجھے تھے کہ وہ پاکستانی ہی نہیں ہیں اس لیے وہ سمجھتی ہیں کہ اس پلیٹ فارم کے ذریعے پاکستان کے بارے میں معلومات ملی ہوں گی۔
پاکستان میں اس ضمن میں ہونے والی نکتہ چینی اور حکومت کی جانب سے لاتعلقی کے اظہار پر ایریکا نے کہا کہ ’کچھ افسوس ہوا تھا لیکن جب آپ تاریخ رقم کرنے نکلتے ہیں تو ابتدا میں یہ سب تو ہوتا ہی ہے۔‘
آخر میں انہوں نے کہا کہ ’لوگ غلط فہمیاں نہ پالیں اور سمجھیں کہ یہ ہے کیا۔‘
ایریکا کا مزید کہنا تھا کہ ’جس بھی لڑکی کو ان کی مدد چاہیے وہ اس کے لیے تیار ہیں۔‘