یہ تو واضح ہوگیا کہ وزیراعظم عمران خان کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کو تحریک انصاف کے حلقوں میں خصوصی اور عام رائے میں عمومی طور پر خاصی پذیرائی ملی ہے۔ تاہم 24 گھنٹے کی مبارک بادوں کے بعد حقائق پر مبنی تجزیے یہ ثابت کرتے ہیں کہ دیگر وزرائے اعظم کی جانب سے کی جانے والی تقاریر سے عمران خان کا خطاب کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا۔
مثلاً انڈپینڈنٹ اردو کی طرف سے کیے جانے والے ایک تجزیئے کے مطابق نواز شریف نے 2016 میں کی گئی تقریر کا 41 فی صد حصہ کشمیر اور بھارت کے لیے مختص کیا جب کہ عمران خان نے اسی موضوع پر 44 فی صد وقت صرف کیا۔ انڈپینڈنٹ اردو کے اس موازنے کے مطابق نواز شریف اور عمران خان کی تقاریر کے مواد میں حیران کن مماثلت بھی ہے۔ بھارت کو مذاکرات کی دعوت ہو یا کشمیر میں بڑھتے مظالم، اقوام متحدہ سے اس مسئلے کے حل کی استدعا ہو یا بین الاقوامی رائے عامہ کی بے حسی، دونوں تقاریر ان موضوعات کے انتخاب کے اعتبار سے کم و بیش یکساں تھیں۔
عمران نے کلبھوشن یادو، ماحولیاتی تبدیلی، منی لانڈرنگ، بھارتیہ جنتا پارٹی، آر ایس ایس، مذہبی عدم رواداری اور اسلام کے خلاف نفرت کے موضوعات اٹھائے جو نواز شریف کی 2016 کی تقریر میں نہیں تھے۔ اسی طرح نواز شریف نے فلسطین، معاشی ترقی، افغانستان میں قیام امن، نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت جیسے موضوعات کا انتخاب کیا جن کا احاطہ عمران خان نہ کر پائے۔
لیکن وزیراعظم عمران خان کی تقریر دو ایسے زاویوں کے حوالے سے یکتا ہے جو ماضی میں کہیں نہیں ملتے۔ انہوں نے بین الاقوامی تحقیقاتی ٹیموں کو پاکستان میں آ کر دہشت گردوں اور ان کے نیٹ ورکس کی مبینہ موجودگی کے بارے میں حقائق جاننے کی دعوت دی جو کئی اعتبار سے حیران کن اور غیر یقینی امکانات سے بھر پور ہے۔ یاد رہے وہ ایسی ہی دعوت بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو بھی دے چکے ہیں۔
دوسرا زاویہ نیوکلیئر جنگ کے ان خطرات پر مبنی ہے جو وزیراعظم عمران خان نے اس بین الاقوامی فورم پر تمام دنیا کے سامنے رکھے۔ یہ خدشہ کہ کشمیر سے اٹھنے والا خون ریزی کا طوفان دونوں ممالک کو ایک تباہ کن جوہری جنگ میں جھونک دے گا، وزیراعظم کی تقریر کے بعد اب پاکستان کا باقاعدہ سرکاری بیانیہ بن چکا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ دونوں موضوعات پاکستان کی سلامتی اور قوم کے تحفظ سے جڑے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی ٹیموں کو پاکستان میں آنے کی دعوت ہو سکتا ہے فی البدیہہ تقریر کے بہاؤ کا نتیجہ ہو لیکن ایک سنجیدہ بین الاقوامی فورم پر اس کا بیان کیا جانا آئندہ دنوں میں پاکستان کے گلے پڑ سکتا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ دہشت گرد تنظیموں اور اقوام متحدہ کی لسٹ پر موجود دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو معاشی معاونت سے محروم کرنے کا مسئلہ ایف اے ٹی ایف کے فورم کے ذریعے ہمارے لیے وبال جان بنا ہوا ہے۔
ہم اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اس تنظیم اور اس کے ممبر ممالک کو اپنے اس نکتہ نظر کی طرف راغب نہیں کر پا رہے کہ دہشت گردی کے یہ دھندے اب پاکستان میں نہیں ہوتے۔ ایف اے ٹی ایف کی انسپیکشن ٹیمیں پاکستان آتی ہیں اور ہر طرح کی چھان بین کرتی ہیں۔ کون سا مدرسہ کیسے کام کر رہا ہے؟ کس بینک میں پیسہ کیسے آ جا رہا ہے؟ سونے کا کاروبار حکومتی کاغذوں میں کس حد تک درج ہے اور کالعدم تنظیموں کی قیادت کے خلاف قانونی چارہ جوئی بالخصوص سزاؤں کا عمل کتنا جاندار ہے؟ یہ اس طویل فہرست میں سے صرف چند ایک معاملات ہیں جن پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے کسی تھانیدار کی طرح پاکستان کی گدی ناپی ہوئی ہے۔
اگرچہ یہ معاملہ عوام کی نظروں سے اوجھل ہے لیکن حقیقت میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس جس کو اب آئی ایم ایف کے معاہدے کی مکمل حمایت حاصل ہے، پاکستان کے سنجیدہ ترین اندرونی معاملات میں گھسی ہوئی ہے۔ اس ’قانونی دراندازی‘ کے باوجود بین الاقوامی نمائندگان کو پاکستان کے اندر دہشت گردی کے حوالے سے جانچ کے لیے دعوت دینا ایک نامناسب اور خطرناک صورت حال کو جنم دے سکتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ پاکستان کا دفتر خارجہ وزیراعظم عمران خان کے اس بیان کی وضاحت کر دے۔ نہ جانے کل کو کون سی قوتیں اس کو بنیاد بنا کر کیا مطالبات کرنا شروع کر دیں۔
جوہری جنگ کے خطرے کا بار بار ذکر اس سے بھی کہیں زیادہ سنجیدہ معاملہ ہے۔ پانچ اگست کے اقدامات کے بعد درجنوں مرتبہ وزیراعظم عمران خان فیصلہ کن جنگ کے امکان اور آخری سانس تک لڑنے کے ارادے کا اظہار کر چکے ہیں۔ یہ دونوں نکات ان کی تقریر میں بھی مرکزیت کے ساتھ موجود تھے۔ یہ حیران کن امر ہے کہ جب بھی نیوکلیئر جنگ اور اس سے ہونے والی مکمل تباہی کا خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے تو وزیراعظم عمران خان دنیا پر مرتب ہونے والے اثرات پر توجہ مبذول کرتے ہیں۔ اس خطے میں جہاں پر پاکستانی آباد ہیں اور جن کے وجود کے تحفظ کے لیے یہ ملک بنایا گیا، ان کا بھارتی شہریوں بشمول ہندوستانی مسلمانوں کا اس جنگ میں کیا حشر ہو گا، نہ موضوع بنتا ہے اور نہ حوالہ۔
وہ کشمیر جس کی وجہ سے یہ جنگ ہو گی وہ برصغیر کی سرزمین کی طرح کیسے اجڑے گا، یہ کسی تقریری متن کا ایک چھوٹا سا جز بھی نہیں ہے۔ آج کل بھارت، پاکستان کے درمیان جوہری جنگ پر ایسے بات ہو رہی ہے کہ جیسے یہ کوئی سٹیج ڈراما ہو جو وزیراعظم عمران خان کی تقریر کی طرح بڑی سکرینوں پر پاکستانی عوام اپنے بچوں اور دوستوں کے ساتھ مل کر ٹھٹھے قہقہے لگاتے ہوئے دیکھیں گے۔
بعض محفلوں میں میں نے خود لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: ’دیکھ لیں گے جب نیوکلیئر جنگ ہوگی‘۔ اب اس ماحول میں، جو ریاست اور حکومت کی طرف سے خود پیدا کیا جا رہا ہے کون کس کو بتائے کہ جوہری جنگ کیا ہوتی ہے؟ یہ ہتھیار کیا کرتے ہیں؟ اور مکمل تباہی کس چڑیا کا نام ہے؟ ٹوئٹر پر ڈنڈ بیٹھکیں لگانے والے اور جنگ کے نام کو استعمال کرکے اپنی اگلی پروموشن کی فکر میں مبتلا تمام سورماؤں کو یوٹیوب پر جا کر ہیروشیما اور ناگاساکی پر پرانے طرز کے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے نتائج دوبارہ سے دیکھنے چاہییں تاکہ وہ وزیراعظم پاکستان تک یہ گزارش پہنچا سکیں کہ نیوکلیئر جنگ وہ قیامت ہے جو اچھے یا برے، حق اور جھوٹ اور پاکستانی اور ہندوستانی میں تمیز نہیں کرے گی۔ بانس بھی جائے گا اور بانسری بھی۔ بجانے والا بھی غرق ہو جائے گا اور سننے والا بھی۔
یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ بار بار جوہری ہتھیاروں کا ذکر کرکے ہم دنیا کے سامنے اپنی پالیسی کو منوانے کے لیے جو کاوش کر رہے ہیں، وہ اس بین الاقوامی سوچ کو بھی جنم دے رہی ہے کہ نیوکلیئر ہتھیاروں کی پاکستان میں موجودگی اس جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ کوئی تو وجہ ہے کہ بھارت جو ہماری طرف سے کی جانے والی ہر بات کا ترکی بہ ترکی جواب دیتا ہے۔ ایٹمی جنگ کی مثالوں کے جواب میں مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ ظاہر ہے وہ بین الاقوامی رائے عامہ کو ایسے ہموار کرنے کی کوشش کرے گا کہ جیسے برصغیر میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کو روکنے کا واحد طریقہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو غیر فعال کرنا ہے۔
ہم نے دیکھا کہ کیسے نیوکلیئر جنگ اور ہتھیاروں کے خطرات کو بنیاد بنا کر ممالک پر جنگیں تھوپی گئیں۔ کیسے ایران اور شمالی کوریا پر نیوکلیئر بدمعاشی اور مولا جٹی کے الزامات لگا کر پابندیوں اور حصار بندیوں کا اہتمام کیا گیا۔
کشمیر پر عمران خان کی توجہ سمجھ میں آتی ہے۔ ان کے دورِ حکومت میں تمام تر دعوؤں کے باوجود بھارت نے کشمیریوں پر وہ قبضہ کیا ہے جو وہ 72 سال میں نہیں کر پایا۔ پاکستان کی سفارت کاری اور دفاعی پالیسی کی تاریخ میں یہ بدترین دھچکا ہے۔ اس پر غم و غصہ کرنا قدرتی ردعمل ہے۔ لمبی تقاریر بھی ہونی چاہییں۔ کم از کم واویلا تو مچے لیکن سخت الفاظ سے نہ کشمیریوں پر ظلم کم ہوگا اور نہ ناک منہ چڑھانے سے نریندر مودی نے کشمیر میں پانچ اگست سے پہلے والے انتظامات بحال کر دینے ہیں۔ بین الاقوامی سفارت کاری تقریری مقابلہ نہیں، معاشی قوت اور اندرونی استحکام کا اکھاڑہ ہے۔ معیشت کو گروی رکھ کر، سیاسی مخالفین کو جیل میں ڈال کر اور ہسپتالوں میں دفعہ 144 عائد کرکے نظام چلانے والوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں بین الاقوامی رائے عامہ فنِ تقریر سے حقیقت میں کس حد تک متاثر ہوئی ہوگی۔