چین کی خفیہ فوج کی پریڈ اپنے برق رفتاری سے ترقی کرتے اسلحے کو ایک الگ انداز میں دکھائے گی۔ ان میں وہ میزائل بھی شامل ہو سکتے ہیں جو تیس منٹ میں امریکہ پہنچ سکتے ہیں۔ چین واشنگٹن اور باقی عالمی طاقتوں سے اسلحے کے میدان میں مقابلے میں برابری کے قریب آتا جا رہا ہے۔
چینی میڈیا کے مطابق ڈونگ فینگ 41 سیریز کے یہ میزائل چینی کمیونسٹ پارٹی کے حکومت میں آنے کے ستر سال پورے ہونے پر کی جانے والی پریڈ میں نمائش کے لیے پیش کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سپرسونک ڈرون اور روبوٹ سب میرین بھی نمائش کا حصہ ہوں گی۔
اس پریڈ میں بیجنگ کی جانب سے تائیوان، ساوتھ چائنا سی اور باقی متنازعہ علاقوں پر اپنی ملکیت کے موقف کا اعادہ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ خطے میں واشنگٹن کے اثر ورسوخ کو بھی چیلینج کیا جائے گا۔
چین کی پیپلز لبریشن آرمی بیس لاکھ مرد اور خواتین فوجیوں کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی فوج ہے۔ جس کے بجٹ اخراجات امریکہ کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔ چین میں جنگی جہاز، چینی ساختہ طیارہ بردار بحری جہاز اور نیوکلیر آبدوزوں کی تیاری بھی جاری ہے۔
سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سیمن ویزمین کہتے ہیں:’ بہت سے لوگ اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں جن میں امریکی فوج بھی شامل ہے۔ جس کا کہنا ہے یہ ویسا ہی ہو رہا جیسے ہم کرتے ہیں اور انہیں فکر لاحق ہونے لگی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چینی وزارت دفاع کے ترجمان میجر جنرل کائی زیجن کے مطابق منگل کو ہونے والی اس پریڈ میں 15 ہزار فوجی حصہ لیں گے۔ اس کے علاوہ 160 ہوائی جہاز اور 580 ہتھیار بھی پریڈ میں شامل ہوں گے۔
میجر جنرل کائی زیجن نے گذشتہ ہفتے رپورٹرز کو بتایا کہ کئی نئے ہتھیار بھی پہلی بار نمائش کے لیے پیش کیے جائیں گے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان میں ڈونگ فینگ 41 بھی شامل ہوں گے تو ان کا کہنا تھا:’ انتظار کریں اور دیکھیں۔‘
اپنی طاقت کا اظہار چینی حکومت کے لیے موجودہ وقت میں بہت اہم ہے کیوں کہ اس وقت سمندری حدود میں تجارتی راستوں پر غلبے کے لیے چین کا جاپان، جنوبی کوریا، ویتنام اور فلپائن سے تنازعہ چل رہا ہے۔
امریکہ کی دفاعی انٹیلی جنس ایجنسی نے جنوری میں رپورٹ کیا تھا کہ ’چین نے جوہری، خلائی اور سائبر سپیس سمیت کئی صلاحیتیں حاصل کر لی ہیں جو دنیا بھر میں اس کے حریفوں تک رسائی کی صلاحیت رکھتی ہیں۔‘
ایس آئی پی آر آئی (سپری ) کے مطابق گذشتہ سال پی ایل اے کا بجٹ پانچ فیصد اضافے سے 250 ارب ڈالر تک پہنچ گیا جو کہ 1994 کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ ہے۔
13 لاکھ فوج اور 650 ارب ڈالر کے بجٹ کے ساتھ امریکہ سب سے آگے اور چین کے مقابلے میں دگنے سے بھی زیادہ بجٹ رکھتا ہے۔
بیجنگ امریکہ کے ساتھ ڈرون ٹیکنالوجی کی دوڑ میں سرکردہ حیثیت رکھتا ہے اور یہ ٹیکنالوجی مشرق وسطی ممالک کو بیچی جاتی ہے۔
لندن میں واقع انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار سٹریٹجک سٹڈیز کے ہیری بوئڈ کہتے ہیں ’چین نے انسانوں کے بغیر اڑنے والے طیاروں کے معاملے میں کافی ترقی کی اور حالیہ سالوں میں اس حوالے سے بہت کام کیا جا رہا ہے۔‘
ڈونگ فینگ 41 کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں لیکن واشنگٹن کے سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے مطابق یہ پندرہ ہزار کلو میٹر تک مار کرنے والے دنیا کی سب سے زیادہ رینج والے میزائلز ہو سکتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ڈونگ فینگ 41 آواز کی رفتار سے پچیس گنا تیز رفتار کے ساتھ تیس منٹ میں امریکہ تک پہنچ سکتے ہیں اور اس پر نصب دس وار ہیڈز دس مختلف اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی ایم آئی آر وی یعنی ملٹی پل انڈپینڈنٹلی ٹارگٹ ایبل ری اینٹری وہیکلز کے نام سے جانی جاتی ہے۔
چین کے پاس موجودہ ڈینگ فینگ 31 میزائل کی رینج 12 ہزار کلو میٹر ہے جو امریکہ کے زیادہ تر حصوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
چینی سوشل میڈیا پر گردش کرتی پریڈ کی تیاریوں کی غیر واضع تصاویر میں ممکنہ طور پر ڈرون جسے ’شارب سوورڈ ‘ دیکھا جا سکتا ہے ایک اور ڈرون ڈی آر 8 یا ووزن 8 بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
ویزمین کے مطابق یہ پریڈ مستقبل میں چین کے ممکنہ عزائم کے بارے میں بھی کچھ اشارے دے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ائیر بورن ٹینکرز یا آبدوزیں سمندر میں ’دور تک دخل اندازی کی اہمیت کو بیان‘ کرتی ہیں۔ دفاعی میزائلز اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ چین امریکہ یا کسی اور ترقی یافتہ حریف سے جنگ کی تیاری کر رہا ہے۔
ویزمین کے مطابق تجزیہ کار چین کے سافٹ وئیر،برقی اور وائرلیس کنٹرول نیٹورک کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اینٹنیوں سے لدے دس ٹرک اس بات کا اشارہ ہیں کہ کوئی چیز چین کے لیے انتہائی اہمیت اختیار کر چکی ہے۔‘
ہیری بوئڈ کے مطابق: ’اگر میزائلز کے لیے موبائل لانچرز کی نمائش کی گئی تو ثابت کرے گی کہ چین ’ نیوکلیر ڈیٹرنٹ میں اپنی صلاحیت قائم رکھنے کو جاری رکھے گا۔‘
سپری کے مطابق چین کے پاس 280 نیوکلیر وار ہیڈز موجود ہیں۔ جبکہ امریکہ کے پاس 6 ہزار 4 سو 50 اور روس کے پاس 6 ہزار 8 سو پچاس جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ بیجنگ کے مطابق یہ ’ کم از کم کریڈیبل نیوکلیر ڈیٹرنٹ ‘ ہے۔ لیکن اس کا کہنا کے وہ کسی تنازعے میں نیوکلیر ہتھیاروں کے استعمال میں کبھی پہل نہیں کرے گا۔
ہیری کہتے ہیں:’ موبائل لانچرز کسی بھی دشمن کے لیے پہلے حملہ کرنا بہت مشکل بنا دیں گے۔‘
ان کے مطابق سیٹلائٹ تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چین ڈی ایف 41 اور ڈی ایف 31 کے لانچرز کی تعداد میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے اور ان کی تعداد 18 سے 36 ہو چکی ہے۔
منصوبہ سازوں کے خیال میں کم از کم نیوکلیر فورس ’ کو زیادہ سے زیادہ ہونا چاہیے۔‘ ان کی نظروں میں ’ اس کو جدت کے ساتھ ایم آئی آر وی کی صلاحیت سے بھی لیس ہونا چاہیئے۔‘
ایسوسی ایٹڈ پریس کی معاونت اس خبر میں شامل ہے۔
© The Independent