بنگلہ دیش کے نگران وزیر اعظم محمد یونس کون ہیں؟

محمد یونس کو عبوری حکومت کی سربراہی دینے کا فیصلہ فوجی سربراہان، طلبہ رہنماؤں، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور نمایاں کاروبای شخصیات کے ایک اجلاس میں ہوا۔

بنگلہ دیش میں ہفتوں سے جاری پرتشدد عوامی احتجاج کے نتیجے میں ملک چھوڑ کر جانے والی معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ کے بعد نوبیل امن انعام یافتہ محمد یونس کو عبوری حکومت کا سربراہ منتخب کیا گیا ہے۔

’غریب ترین افراد کے بینکر‘ اور شیخ حسینہ کے دیرینہ ناقد کے طور پر جانے جانے والے یونس نئے انتخابات کے انعقاد تک نگران وزیر اعظم کے طور پر کام کریں گے۔

یہ فیصلہ منگل کی رات ایک اجلاس کے بعد کیا گیا جس میں احتجاج کرنے والے طلبہ رہنما، فوجی سربراہان، سول سوسائٹی کے ارکان اور کاروباری رہنماؤں نے شرکت کی۔

سرکاری ملازمتوں کی تقسیم کے لیے کوٹہ سسٹم پر کئی ہفتوں سے جاری احتجاج کے بعد شیخ حسینہ کو پیر کو ملک چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔

15 سال سے حکومت کرنے والی شیخ حسینہ کے دور میں بنگلہ دیش نے معاشی ترقی ضرور کی لیکن اس دوران ان پر انسانی حقوق سلب کرنے کے الزام بھی عائد ہوئے۔

ان کے جانے سے ملک کو ایک سیاسی بحران کا سامنا ہے۔ فوج نے عارضی طور پر کنٹرول سنبھال لیا ہے لیکن یہ واضح نہیں کہ صدر کی جانب سے منگل کو پارلیمنٹ تحلیل کرنے کے بعد عبوری حکومت میں اس کا کردار کیا ہوگا۔

مظاہروں کا اہتمام کرنے والے طلبہ رہنما چاہتے ہیں کہ یونس، جو اس وقت اولمپکس کے منتظمین کے مشیر کی حیثیت سے پیرس میں موجود ہیں، عبوری حکومت کی قیادت کریں۔

یونس سے فوری طور پر رابطہ نہیں ہوسکا، لیکن اہم طلبہ رہنما ناہید اسلام نے زور دے کر کہا کہ یونس نے ان کے ساتھ بات چیت کے دوران ذمہ داری اٹھانے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ 83 سالہ یونس شیخ حسینہ کے ایک معروف نقاد اور سیاسی مخالف ہیں۔

یونس نے شیخ حسینہ کے استعفے کو ’دوسری ملکی آزادی‘ قرار دیا تھا جبکہ شیخ حسینہ انہیں ایک بار ’خون چوسنے والا‘ کہہ چکی ہیں۔

پیشے کے لحاظ سے ماہر اقتصادیات اور بینکر یونس کو 2006 میں غریب لوگوں، خاص طور پر خواتین کی مدد کے لیے مائیکرو کریڈٹ کے استعمال میں پیش پیش رہنے پر امن کا نوبیل انعام دیا گیا تھا۔

انہوں نے 1983 میں گرامین بینک کی بنیاد رکھی تاکہ ان کاروباری افراد کو چھوٹے قرضے فراہم کیے جا سکیں جو عموماً ان قرضوں کو حاصل کرنے کے اہل نہیں ہوتے۔

لوگوں کو غربت سے نکالنے میں بینک کی کامیابی نے دوسرے ممالک میں بھی اسی طرح کی مائیکرو فنانسنگ کی کوششوں کو جنم دیا۔

2008 میں شیخ حسینہ کے ساتھ ان کی مشکلات اس وقت پیدا ہوئیں جب ان کی انتظامیہ نے یونس کے خلاف تحقیقات کا سلسلہ شروع کیا۔

یونس نے 2007 میں اس وقت ایک سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا تھا جب ملک کو فوج کی حمایت یافتہ حکومت چلا رہی تھی۔

تحقیقات کے دوران شیخ حسینہ نے ان پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے گرامین بینک کے سربراہ کی حیثیت سے غریب دیہی خواتین سے قرضوں کی وصولی کے لیے طاقت اور دیگر ذرائع کا استعمال کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یونس ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ شیخ حسینہ کی حکومت نے 2011 میں بینک کی سرگرمیوں کی چھان بین شروع کی تھی اور یونس کو مبینہ طور پر سرکاری ریٹائرمنٹ کے قواعد کی خلاف ورزی کرنے پر مینیجنگ ڈائریکٹر کے عہدے سے برطرف کر دیا تھا۔

ان پر 2013 میں حکومت کی اجازت کے بغیر رقم وصول کرنے کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا، جس میں ان کا نوبیل انعام اور ایک کتاب سے ملنے والی رائلٹی بھی شامل تھی۔

بعد ازاں انہیں اپنی بنائی ہوئی دیگر کمپنیوں سے متعلق مزید الزامات کا سامنا کرنا پڑا، جن میں گرامین ٹیلی کام بھی شامل ہے، جو ملک کی سب سے بڑی موبائل فون کمپنی گرامین فون کا حصہ ہے اور جو ناروے کی ٹیلی کام کمپنی ٹیلی نار کا ماتحت ادارہ ہے۔

2023 میں گرامین ٹیلی کام کے کچھ سابق ملازمین نے یونس کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا تھا، جس میں ان پر نوکری میں فائدے اٹھانے کا الزام لگایا گیا تھا۔ انہوں نے ان الزامات کی تردید کی۔

اس سال کے اوائل میں بنگلہ دیش میں ایک خصوصی عدالت نے یونس اور 13 دیگر افراد پر 20 لاکھ ڈالر کے غبن کے معاملے میں فرد جرم عائد کی تھی۔ یونس نے خود کو بے قصور قرار دیا اور فی الحال ضمانت پر باہر ہیں۔

یونس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ کے ساتھ ان کے سرد مہری کے باعث انہیں نشانہ بنایا گیا۔

یونس 1940 میں بنگلہ دیش کے بندرگاہی شہر چٹاگانگ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے امریکہ کی وینڈربلٹ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور بنگلہ دیش واپس آنے سے پہلے وہاں مختصر وقت کے لیے پڑھایا۔

2004 میں ایسوسی ایٹڈ پریس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں یونس نے کہا تھا کہ انہوں نے گرامین بینک قائم کرنے کے لیے اس وقت ’یوریکا تحریک‘ چلائی تھی جب ان کی ملاقات بانس کے سٹول بنانے والی ایک غریب خاتون سے ہوئی، جو اپنے قرضوں کی ادائیگی کے لیے جدوجہد کر رہی تھیں۔

انہوں نے انٹرویو میں یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ جب وہ اتنی خوبصورت چیزیں بنا رہی تھیں تو وہ اتنی غریب کیسے ہو سکتی ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا