شیخ حسینہ برطانیہ میں سیاسی پناہ کے حصول کی خواہش مند

انڈین میڈیا کی رپورٹ کے مطابق انہیں ابھی تک برطانیہ سے سیاسی پناہ کے حوالے سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

بنگلہ دیش کے وزیر اعظم کے دفتر کی طرف سے 25 جولائی 2024 کو جاری کی گئی اس ہینڈ آؤٹ تصویر میں شیخ حسینہ میرپور میں میٹرو سٹیشن کے دورے کے دوران توڑ پھوڑ دیکھ کر آبدیدہ ہو گئیں (اے ایف پی)

بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ ملک میں ہونے والے پرتشدد احتجاج کے باعث فوجی ہیلی کاپٹر پر ملک سے جانے کے بعد اب اطلاعات کے مطابق سیاسی پناہ کی درخواست پر برطانیہ کے جواب کی منتظر ہیں۔

76 سالہ شیخ حسینہ پیر (پانچ اگست) کو اس وقت پڑوسی ملک انڈیا پہنچیں جب ان کی روانگی سے کچھ دیر قبل ہی برہم مظاہرین نے ان کی سرکاری رہائش گاہ پر دھاوا بولا، جو دو دہائیوں سے زائد عرصے تک سیاست میں سرگرم رہنے والی شیخ حسینہ سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے تھے۔

سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف مظاہروں کے بعد شیخ حسینہ کی حکومت کے خلاف غم و غصہ بڑھ گیا، احتجاج کرنے والوں کو حکومتی فورسز کی طرف سے سختی کا سامنا کرنا پڑا، جس میں 400 سے زائد افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

انڈیا کے نشریاتی ادارے سی این این نیوز 18 کی رپورٹ کے مطابق انڈیا کے شمال مشرقی شہر اگرتلہ میں لینڈنگ کے بعد شیخ حسینہ اپنی بہن کے ساتھ نئی دہلی پہنچیں اور برطانوی حکومت سے سیاسی پناہ کی درخواست کی۔

رپورٹ کے مطابق شیخ حسینہ کو نئی دہلی میں اپنا قیام بڑھانا پڑا رہا ہے کیونکہ انہیں ابھی تک برطانیہ کی جانب سے سیاسی پناہ پر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

شیخ حسینہ اپنی چھوٹی بہن شیخ ریحانہ کے ساتھ ہیں جو برطانوی شہریت رکھتی ہیں۔ شیخ ریحانہ کی بیٹی ٹیولپ صدیق لیبر پارٹی کی جانب سے برطانوی پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہوئی ہیں۔

برطانیہ کی جانب سے بنگلہ دیشی رہنما کی درخواست پر ردعمل مبہم ہے جیسا کہ برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی بنگلہ دیش میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں اور جانوں کے افسوس ناک ضیاع کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے ایک بیان میں کہا کہ برطانیہ اور بنگلہ دیش کے درمیان عوام کے گہرے روابط اور دولت مشترکہ کی سانجھی اقدار موجود ہیں۔

ان کے بقول: ’تمام فریقین کو اب تشدد کو ختم کرنے، امن بحال کرنے، کشیدہ حالات کو کم کرنے اور مزید جانی نقصان کو روکنے کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’بنگلہ دیش کے عوام گذشتہ چند ہفتوں کے واقعات کی اقوام متحدہ کی زیر قیادت مکمل اور آزاد تحقیقات کے مستحق ہیں۔‘

انہوں نے بنگلہ دیش میں تشدد کو ’بے مثال‘ قرار دیتے ہوئے پرامن اور جمہوری مستقبل تک پہنچنے کے لیے بنگلہ دیش کے لیے برطانیہ کے نیک عزائم کا اظہار بھی کیا۔

تاہم برطانیہ اور انڈیا کی حکومتوں نے اس پیش رفت پر کوئی سرکاری بیان نہیں دیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سول سروس کی ملازمتوں کا ایک تہائی حصہ پاکستان کے ساتھ 1971 کی ’جنگ آزادی‘ کے سابق فوجیوں کی نسلوں کے لیے مخصوص کوٹے کی صورت میں برقرار رکھنا شیخ حسینہ کے 15 سالہ اقتدار کے لیے سب سے سخت چیلنج تھا۔

جون کے اختتام سے شروع ہونے والے مظاہروں نے اس وقت پرتشدد رنگ اختیار کرلیا، جب شیخ حسینہ کی حکومت نے ملک بھر میں مظاہرین کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دیا، ملک بھر میں مواصلاتی رابطوں پر پابندی اور کرفیو نافذ کر دیا۔

سپریم کورٹ کی طرف سے گذشتہ ماہ طلبہ کے حق میں فیصلے کے بعد، زیادہ تر مختص کوٹہ واپس لے لیا گیا تھا لیکن احتجاج جاری تھا کیونکہ لوگ مظاہرین کی اموات کے ذمہ داروں کا احتساب کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

ڈھاکہ ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق پیر کو بنگلہ دیش بھر میں پولیس کی فائرنگ، جھڑپوں اور آتش زنی کے واقعات میں مزید 135 افراد مارے گئے جب کہ احتجاجی رہنماؤں کی طرف سے ڈھاکہ کی جانب مارچ میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔

ملک کے کچھ حصوں میں لوٹ مار، توڑ پھوڑ اور آتش زنی کے بڑے واقعات کے ساتھ ہندو اقلیتوں پر بڑھتے ہوئے حملوں کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔

امریکی حکومت نے بنگلہ دیش کی فوج کو اس کی جانب سے ’تحمل‘ برتنے کے لیے سراہا اور ایک جمہوری عبوری حکومت کا مطالبہ کیا۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے پیر کو کہا: ’امریکہ نے طویل عرصے سے بنگلہ دیش میں جمہوری حقوق کا احترام کرنے پر زور دیا ہے اور ہم جامع اور عبوری حکومت کی تشکیل پر زور دیتے ہیں۔ ہم فوج کے اس تحمل کی تعریف کرتے ہیں جو انہوں نے آج دکھایا ہے۔‘

ادھر یورپی یونین نے ملک میں ایک جمہوری طور پر ایک نئی حکومت کے انتخاب کی جانب ’منظم اور پرامن منتقلی‘ کے عمل پر بھی زور دیا۔

شیخ حسینہ کے بیٹے سجیب واجد اور ان کے اتحادیوں نے کہا ہے کہ وہ سیاست میں واپس نہیں آئیں گی۔

ان کے بیٹے نے بی بی سی کو بتایا: ’ان کی 70 سال سے زیادہ ہے اور وہ اپنی تمام تر محنت کے باوجود، ایک اقلیتی طبقے کی کے ان کے خلاف احتجاج پر مایوس ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے (سیاست سے) کنارہ کشی کر لی ہے۔‘

شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش کی ’آئرن لیڈی‘ کے طور پر جانا جاتا ہے جنہوں نے 1996 میں پہلی بار اقتدار میں آنے کے بعد 20 سال اقتدار میں گزارے۔

یہ دوسری بار ہے جب وہ اپنی زندگی میں جلاوطنی پر مجبور ہوئی ہیں۔ وہ 1975 میں بنگلہ دیش کی بنیاد رکھنے والے اپنے والد شیخ مجیب الرحمان، والدہ اور تین بھائیوں کے قتل کے بعد پہلی بار وہ جلاوطنی ہو گئی تھیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا