شیخ حسینہ نے بنگلہ دیش میں ایک ماہ سے جاری بحران کے بعد استعفیٰ دے دیا ہے اور میڈیا رپورٹوں کے مطابق وہ ایک ہیلی کاپٹر میں انڈیا روانہ ہو گئی ہیں، جب کہ مشتعل مظاہرین وزیرِ اعظم ہاؤس میں داخل ہو گئے ہیں۔
بنگلہ دیشی فوج کے سربراہ جنرل وقار الزمان نے ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب میں عبوری حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا ہے۔
شیخ حسینہ کی حکومت کا اقتدار بہت تیزی سے ان کے ہاتھوں سے نکلا ہے۔ جولائی میں کوٹا سسٹم کے خلاف طلبہ نے احتجاج کیا، جو بڑھتے بڑھتے پورے ملک میں پھیل گیا۔ اس دوران تشدد میں تک ڈھائی سو کے قریب افراد مارے گئے جب کہ 11 ہزار کے قریب لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔
اس احتجاج کی بنیادی وجہ کوٹا سسٹم کی بڑے پیمانے پر مخالفت ہے۔ بنگلہ دیش میں نوکریاں کوٹے کی بنیاد پر دی جاتی تھیں۔ 30 فیصد نوکریاں بنگلہ دیش کی تحریک آزادی میں حصہ لینے والوں کے لیے مختص تھیں۔ اس کے علاوہ 56 فیصد کوٹا اقلیتوں، قبائل اور پسماندہ برادریوں کو مشترکہ طور پر دیا جاتا تھا۔
2018 میں ایک بڑے عوامی احتجاج کے بعد اس کوٹہ سسٹم کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ البتہ بنگلہ دیش ہائی کورٹ نے اس سال جون میں یہ کوٹا بحال کر دیا جس کے بعد جولائی میں طلبہ نے یونیورسٹیوں میں احتجاج شروع کر دیا۔ جب بنگلہ پولیس کے علاوہ عوامی لیگ کے سٹوڈنٹ ونگ نے اس تحریک کو زبردستی روکنے کی کوشش کی تو حالات قابو سے باہر ہو گئے۔
شیخ حسینہ واجد نے 14 جولائی کو ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کی مخالفت کرنے والوں کو ’پاکستانی ایجنٹ‘ قرار دیا تھا، جس پر احتجاج میں مزید شدت آ گئی تھی۔
اس کے بعد عدالت نے کوٹا سسٹم دوبارہ ختم کر دیا مگر مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ حکومت اس دوران مارے جانے والے افراد کے خون کا حساب دے اور شیخ حسینہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔
حسینہ واجد پچھلے 15 سال سے برسر اقتدار تھیں۔ ان کے دور میں بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر تعمیر ہوا اور بنگلہ دیش کی فی کس آمدن صرف دس سال میں تین گنا ہو گئی۔ ورلڈ بنک کے مطابق اس دوران ڈھائی کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے اوپر اٹھ آئے۔
لیکن گذشتہ چند برسوں میں ترقی کی یہ تیز رفتار سست ہونا شروع ہو گئی، جس سے لاکھوں نوجوان بےروزگار ہو گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب حسینہ واجد کی حکومت کا انسانی حقوق کا ریکارڈ اچھا نہیں۔ انہوں نے اپنے مخالفین کو سختی سے دبانے کی پالیسی اختیار کی ہے۔ حکومت پر تنقید کرنے والے پندرہ پندرہ سال سے لاپتہ ہیں۔
اس سال جنوری میں ہونے والے انتخابات میں شیخ حسینہ نے 75 فیصد نشستوں پر کامیابی حاصل کی مگر حزبِ اختلاف کے بائیکاٹ کی وجہ سے ٹرن آؤٹ صرف 40 فیصد رہا، جب کہ اس سے پچھلے انتخابات میں یہ شرح 80 فیصد تھی۔
حالیہ انتخابات میں بھی دھاندلی کے الزامات لگے اور امریکی محکمہ خارجہ نے بھی کہا کہ یہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نہیں تھے۔
76 سالہ شیخ حسینہ بنگلہ دیش کے بانی والد شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی ہیں۔
1975 میں جب ایک فوجی بغاوت کے دوران شیخ مجیب کے پورے خاندان کو قتل کر دیا گیا اس وقت شیخ حسینہ اپنی بہن شیخ ریحانہ کے ہمراہ یورپ کے دورے پر ہونے کی وجہ سے بچ گئیں، اور مارشل لا کے دور میں انڈیا میں سیاسی پناہ لی اور جلا وطنی ہی کے دوران انہیں شیخ مجیب الرحمٰن کی جماعت عوامی لیگ کا سربراہ منتخب کر لیا گیا۔
وہ پہلی بار 1996 میں انتخابات جیت کر وزیراعظم بنیں۔ 2009 میں دوبارہ اقتدار میں آئیں، تب سے اب تک وہ چار مسلسل انتخابات جیت چکی ہیں۔
شیخ حسینہ کو 2018 میں ٹائم میگزین نے دنیا کے سو بااثر ترین افراد کی فہرست میں شامل کیا، جب کہ فوربز میگزین انہیں تین بار دنیا کی طاقتور ترین خاتون قرار دے چکا ہے۔
حسینہ کی مدتِ اقتدار کو کامیابیوں اور تنازعات دونوں سے عبارت ہے۔ انہیں بنگلہ دیش کی معیشت اور گارمنٹ صنعت کو بہتر بنانے کا سہرا دیا جاتا ہے اور میانمار سے فرار ہونے والے روہنگیا پناہ گزینوں کو پناہ دینے پر بین الاقوامی تعریف حاصل ہوئی ہے۔ تاہم، ان کی حالیہ انتخابی فتوحات حزب اختلاف کے بائیکاٹ اور دھاندلی کے الزامات سے دھندلی رہیں۔
اس کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظیمیں ان پر حزبِ اختلاف کو سختی سے کچلنے، جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے الزامات لگاتی رہی ہیں۔