کوئی بھی تکلیف کے بغیر زندگی نہیں گزارتا۔ بہت سے لوگوں کے لیے تکلیف جلدی شروع ہوتی ہے اور اس کا زندگی بھر اثر رہتا ہے جیسا کہ ایلون مسک کے معاملے میں لگتا ہے۔
2018 میں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کا بچپن خوش گوار گزرا ہے تو ان کی مردانگی کا نقاب اتر گیا جس کے پیچھے زخمی، روتے ہوئے اور متنازع شخص کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔ ان کا جواب تھا کہ ’نہیں، خوفناک تھا۔ بہت پرتشدد تھا۔ خوشگوار بچپن نہیں تھا۔ مجھے پیٹ پیٹ کر تقریباً جان سے مار دیا گیا۔ میرے والد بہت زیادہ بدسلوکی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ وہ سنگین مسائل کا شکار تھے۔‘
مسک کے والد نے بدسلوکی کے ان دعوؤں کو ’بالکل بکواس‘ قرار دیا۔
مسک کی 2023 میں شائع ہونے والی سوانح حیات میں دعویٰ کیا گیا کہ 17 سال کی عمر میں انہیں احساس ہوا کہ انہیں اپنے والد کے ہاتھوں جسمانی اذیت سے بچنا ہو گا، لیکن شاید وہ مکمل طور پر بچ نہیں سکے تھے۔
مسک کی پہلی بیوی جسٹن ولسن یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’میں ان ہولناک کہانیوں کے رنگ دیکھتی تھی جو ایلون نے بتایا کہ خود ان کے رویے میں جھلکتے ہیں۔ اس سے مجھے احساس ہوا کہ ہم جس ماحول میں پلے بڑھے اس کے اثرات سے بچنا کتنا مشکل ہے۔ چاہے ہم نہ بھی چاہتے ہوں کہ ہمیں ایسا سمجھا جائے۔ آپ اپنے والد کی طرح بنتے جا رہے ہیں (ہم انہیں بتایا کرتے۔) یہ ہمارا ڈھکا چھپا جملہ تھا تاکہ انہیں متنبہ کیا جا سکے کہ وہ تاریکی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔‘
ایسا لگتا ہے کہ مسک نے ان میں سے بہت سے مسائل کو حل نہیں کیا، جس کی وضاحت حالیہ برسوں میں انٹرویوز اور سوشل میڈیا پر ان کے کچھ طرز عمل سے ہوتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کی بہت سے مثالیں ہیں جن میں یہ بھی شامل ہے کہ انہوں نے 2018 میں غار میں گرے لوگوں کو بچانے والے عملے کے ایک رکن کو ’بچہ باز‘ قرار دیا۔ 2020 میں انہوں نے سوشل میڈیا پرکرونا وائرس کے بارے میں جعلی اور متازع دعوے کیے اور گھر پر رہنے کے حکم کو ’فسطائی‘ قرار دیا۔ حال ہی میں انہوں نے دنیا کے مشہور برانڈز پر سخت تنقید کی جنہوں نے ان کی یہود مخالف پوسٹ کے بعد ایکس (سابق ٹوئٹر) پر اشتہار دینا بند کر دیے تھے۔
اگر یہ کافی نہیں ہے تو مسک اب باقاعدگی سے سیاسی میدان میں اتر چکے ہیں۔ انہوں نے عجیب و غریب انداز میں برطانیہ کو خبردارکیا کہ وہ ’لامحالہ‘ خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔
مسک اپنے ناقدین کو جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہیں ’اظہار رائے کی قطعی آزادی‘ ہے۔ یہ ایسا مفروضہ ہے جس کی بنیاد پر وہ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں جو وہ کہنا چاہتے ہیں، لیکن وہ غلطی پر ہیں۔ اظہار رائے کے نظریے میں تضاد پایا جاتا ہے۔ ہم سب ان الفاظ پر جوابدہ ہیں جو ہم استعمال کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم اپنے اعمال پر جواب دہ ہوتے ہیں۔
مجھے ایسا لگتا ہے جیسے وہ مردانگی کی زہریلی سوچ کے ساتھ مسائل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ وہ یہاں تک کیسے پہنچے اور کیا باہر نکلنے کا کوئی راستہ ہے؟
زہریلی مردانگی کی بنیادی خصوصیات میں سے ایک ہراساں کرنا ہے۔ یہ جسمانی یا جذباتی یا یہاں تک کہ دونوں صورتوں میں ہو سکتا ہے۔ یہ کام کسی دوسرے انسان کو نیچا دکھانا ہو سکتا ہے اس انداز میں کہ متاثرہ شخص اپنے آپ کو بے بس محسوس کرے۔
یہ عمل طاقت کے اظہار سمیت جارحیت بھی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بزدلانہ کارروائی بھی ہے۔ کیونکہ دھونس جمانے والے ہمیشہ کسی نہ کسی چیز یا کسی فرد کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔ مسک حملہ کرتے ہیں لیکن پھر اپنی بے پناہ دولت کے پیچھے چھپ جاتے ہیں، جسے وہ ناقدین کو خاموش کروانے، دھمکیاں دینے اور دوسروں کی توہین کرنے کے لیے استعمال کرنے کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں۔
مسک کی غنڈہ گردی کا تازہ ترین شکار سکاٹ لینڈ کے سابق وزیراعظم حمزہ یوسف ہیں جن کے ساتھ مسک کا ٹوئٹر/ایکس پر طویل عرصے سے جھگڑا چل رہا ہے۔ مسک نے یوسف کو ’انتہائی نسل پرست‘ قرار دیا اور سیاست دان کو اپنے خلاف ہرجانے کا مقدمہ دائر کرنے پر مجبور کیا ہے۔
شاید یہ محسوس کرتے ہوئے کہ وہ ذاتی مسائل کا شکار ہیں، مسک حال ہی میں ایک ماہر نفسیات کے پاس گئے۔ بدقسمتی سے انہوں نے جورڈن پیٹرسن کا انتخاب کیا جو صنفی مساوات اور حقوق نسواں کے بدنام زمانہ مخالف اور قدامت پسند ہیں۔ کیا اس سے مدد ملی؟ ان کی دو گھنٹے کی ملاقات کا جو نتیجہ نکلا وہ یہ تھا کہ پیٹرسن اور مسک دونوں کے تعصبات کو تقویت ملی خاص طور پر مسک کی خواجہ سراؤں کے معاملے میں حد سے زیادہ بظاہر کھلی بیزاری کو۔
مسک کا کہنا تھا کہ ’بچوں کے لیے تبدیلی جنس کا آپریشن نامناسب اور نقصان دہ ہے۔ مجھے دھوکہ دے کر اپنے بیٹے کا آپریشن کروانے پر راضی کیا گیا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ میں نے بیٹے کو کھو دیا۔ اس کے بعد میں نے صنفی مساوات کے وائرس کو ختم کرنے کا عزم کیا۔‘
کسی حیرت کے بغیر اس رویے کا نتیجہ مسک کی خواجہ سرا بیٹی ویوین جیسا ولسن کی سوچ میں دکھائی دیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ انہیں ’کسی بھی انداز، شکل یا صورت میں جینیاتی والد کے ساتھ رہنے یا ان کی طرف منسوب کیے جانے کی خواہش نہیں ہے۔‘
اجالے اور اندھیرے کے درمیان مسک کی اندرونی کشمکش، جسے سب سے پہلے ان کے اہل خانہ نے دیکھا، تیزی سے کھلے عام کھائی دینے لگی ہے۔ فی الحال، ایسا لگتا ہے کہ تاریک پہلو جیت رہا ہے۔ مسک غصیلے، انتقامی، تلخی کے شکار شخص کے طور پر سامنے آ رہے ہیں اور ’صنفی مساوات‘ کے لیے ان کی نفرت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔
جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے والد کے ساتھ ہوا تھا، اسی طرح لگتا ہے کہ یہ مسک کے والد تھے جنہوں نے اپنے بیٹے کو زہریلی مردانگی کا راستہ دکھایا۔ ٹرمپ اس رویے کی گہرائیوں میں چلے گئے۔ غیر متوازن، زیادہ غصیلے بن گئے اور اچھے، برے میں فرق کرنے کی صلاحیت سے مکمل طور پر محروم ہو گئے۔
ٹرمپ اور مسک جیسے لوگ اس کی توثیق چاہتے ہیں اور معصومیت سے کہتے ہیں کہ وہ ’فطری‘ مردانہ طرز عمل سمجھتے ہیں۔ بدقسمتی سے، پھر ان کے روایتی صنفی نظریات اور پدرشاہی عقائد کو ایک ایسے معاشرے کی طرف سے مسترد کر دیا جاتا ہے، جو تیزی سے ترقی پسند اقدار کو اپنا رہا ہے۔
اس طرح بہت زیادہ نفسیاتی کشمکش پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح کے مرد خود کو مسترد محسوس کرتے ہیں اور وہ غلط نہیں ہیں، کیونکہ انہیں (یا ان کی مردانگی کو) مسترد کیا جا رہا ہوتا ہے۔ یہ لوگ واقعی بہت زیادہ غصہ کر سکتے ہیں اور بہت اکیلے پڑ سکتے ہیں۔
جب مرد خود کو کٹا ہوا اور تنہا محسوس کرتے ہیں تو وہ جارحانہ اور نقصان دہ انداز میں رد عمل ظاہر کرسکتے ہیں۔ وہ مرد جو زہریلے خیالات (جیسے اینڈریو ٹیٹ) میں گہری دلچسپی لیتے ہیں وہ کبھی تبدیل نہیں پاتے کیونکہ ان کے لیے مرد ہونے کے مطلب کو مکمل طور پر تبدیل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ شناخت کی ایسی تبدیلی اکثر ان کے بس سے باہر ہوتی ہے۔
مسک کو میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو سوشل میڈیا سے وقفہ لیں۔ تھوڑی دیر کے لیے سیاست کو نظر انداز کریں اور اپنے آپ پر توجہ مرکوز کریں۔
میرے لیے یہ واضح ہے کہ مسک زہریلی مردانگی میں دلچسپی لیتے ہیں اور گذشتہ چند سال میں وہ تیزی سے اس کی گہرائی میں گئے ہیں۔ میڈیا میں ان کے حالیہ تبصروں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایسے شخص ہیں، جو اب لبرل اقدار کے بارے میں محض گفتگو کی حد تک بھی بات نہیں کرتے۔ انہوں نے پوری طرح سے اعلان کر دیا کہ وہ کس طرف ہیں۔
عالمی معاشرے کو ایسے رہنماؤں اور رول ماڈلز کی ضرورت ہے جو ہمدرد، غور وفکر والے، مہربان، جامع اور سیکھنے کے معاملے میں کھلے ذہن کے مالک ہوں۔ خاص طور پر اپنی ذات کے معاملے میں، دوسرے لفظوں میں وہ اپنے جذبات کو سمجھتے ہوں۔
فی الحال، ایسا لگتا ہے کہ مسک اپنی زندگی کی سب سے غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہیں۔ ان کی دولت ان کے کام نہیں آئے گی۔ اس کی وجہ سے صرف یہ امکان ہے کہ ان کے اور حقیقت کے درمیان اور بھی بڑا فرق پیدا ہو جائے گا۔ ان کا ’مردانگی‘ کے بارے میں نقطہ نظر مستقبل نہیں، یہ بات یقینی ہے۔
مسک کو میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو سوشل میڈیا سے وقفہ دیں۔ تھوڑی دیر کے لیے سیاست کو نظر انداز کریں اور اپنے آپ پر توجہ مرکوز کریں۔ اس وقت کو اپنے خاندان کے ساتھ دوبارہ رابطہ قائم کرنے کے لیے استعمال کریں، جن میں خاندان کے ناراض لوگ بھی شامل ہوں۔
جہاں تک خاندان کا تعلق ہے، اسے والد کو معاف کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ان جیسا نہیں بننا چاہیے۔ اس کی بجائے وہ بننا چاہیے جو وہ اصل میں ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اپنے آپ سے سوال کیا جائے کہ آیا آپ ایسا شخص بننے جا رہے ہیں، جسے آپ نے ہمیشہ ناپسند کیا یا اس سے خوف محسوس کیا۔ جواب کو غور سے سنیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈاکٹر سٹیون ایم وائٹ ہیڈ ایک برطانوی ماہر سماجیات ہیں جنہوں نے مردوں اور مردانگی، صنفی شناخت، بین الاقوامی تعلیم اور شمولیت کے بارے میں بڑے پیمانے پر لکھا ہے۔
© The Independent