ایلون مسک کے برطانوی فسادات میں الجھنے کا مقصد کیا ہے؟

مسک کہتے ہیں کہ برطانیہ میں خانہ جنگی ناگزیر ہے۔ کہیں اس کا مطلب اپنی کمپنیوں کے مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانا تو نہیں؟

تین اگست 2024 کو برسٹل میں ہونے والے ہنگامے اور ایلون مسک (اے ایف پی)

ایلون مسک اب بظاہر لندن کے بدنما فسادات کے ماہر بن گئے ہیں۔ جی ہاں، دنیا کا امیر ترین شخص برطانیہ کی سڑکوں پر ہونے والے تشدد پر تبصرہ کر رہا ہے۔

یہ تشدد دائیں بازو کے غنڈوں کی جانب سے کیے جانے والے جرائم ہیں جو بظاہر یہ سمجھتے ہیں کہ حب الوطنی کا مطلب آگ لگانا، مسلمانوں سے بدسلوکی اور دکانوں کے شیشے توڑنا ہے تاکہ جو کچھ بھی مل سکے اسے لوٹ سکیں۔

کاروباری شخصیت سے عالمی امور کے معروف ماہر بننے والے ایلون مسک کے مطابق، جنہوں نے شاید کبھی ان جگہوں پر گئے ہی نہیں، اب یہ ’ناگزیر‘ ہے کہ برطانیہ ’خانہ جنگی‘ کی سمت بڑھ رہا ہے۔

انہوں نے وزیر اعظم کیئر سٹارمر کے بارے میں بھی مختلف موضوعات پر ٹرولنگ کی ہے، جن میں روڈرہیم گروومنگ گینگ سکینڈل بھی شامل ہے، اور یہاں تک کہ مسک نے یہ اشارہ دیا کہ برطانیہ میں کمیونٹیز سے’دو سطحوں پر ہونے والی پولیسنگ‘ کے تحت امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔

اپنے ہی پلیٹ فارم ٹوئٹر کا استعمال کرتے ہوئے مسک نے ٹویٹس کے ایک سلسلے میں عجیب و غریب تبصرے پوسٹ کیے ہیں۔ مسک نے سٹارمر کے اس (درست) بیان کے جواب میں کہا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ’احتجاج‘ نہیں بلکہ ’خالص تشدد‘ ہے۔

سٹارمر نے مزید کہا کہ وہ ’مساجد یا مسلم کمیونٹیز پر حملوں کو برداشت نہیں کریں گے‘ جو کہ اس کا شکار ہو رہے ہیں۔

اس بیان کو مسک نے چیلنج کرتے ہوئے پوچھا: ’کیا آپ کو *تمام* کمیونٹیز پر حملوں کے بارے میں فکر مند نہیں ہونا چاہیے؟‘

اس دوران واحد چیز جو ناگزیر تھی وہ اس ٹویٹ پر سخت عوامی تنقید تھی، جس میں خیرخواہ شخصیات نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ وہ شخصیات جو شاید اس ٹویٹ کے مضمرات کا سوچ کر صدمے کی حالت میں چلی گئی تھیں۔

مثال کے طور پر (تاریخ دان) روری سٹیورٹ نے مسک کو جواب دیا: ’واقعی؟ آپ نے کب سے دعویٰ کرنا شروع کر دیا ہے کہ آپ برطانوی کمیونٹیز یا برطانوی سیاست کو سمجھتے ہیں؟ آپ نے ان کمیونٹیز کے ساتھ کتنے دن گزارے ہیں؟ کیا آپ کو کبھی یہ خیال آتا ہے کہ شاید یہ وہ وقت نہیں ہے جب آپ کو ایک ایسے موضوع پر بات کرنی چاہیے جس کے بارے میں آپ کچھ نہیں جانتے؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سٹیورٹ بےوقوف نہیں ہیں اور غلط بھی نہیں ہیں، لیکن ان کی مداخلت کی وجہ سے مسک کو آن لائن گفتگو کے مرکز میں رہے، جو میرے خیال میں، اس کے عین مطابق ہے جو مسک چاہتے تھے۔

ٹوئٹر/ایکس، جسے مسک کو ایک غیر مناسب ٹیک اوور کی تجویز کے بعد خریدنے پر مجبور ہونا پڑا (انہوں نے خود ایک بی بی سی انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا تھا)، ان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے کوئی بڑی کامیاب کمپنی نہیں رہی ہے۔ اس سال جنوری میں ایکسیوس نے انکشاف کیا کہ بڑی امریکی مالیاتی کمپنی ’فائیڈیلٹی‘ نے 44 ارب ڈالر کے ٹیک اوور میں مدد کرنے کے بعد ٹوئٹر کے حصص کی مالیت میں 71.5 فیصد تک کمی آئی ہے۔

یہ تجزیہ فائیڈیلٹی کی اپنی ہولڈنگز کے جائزے پر مبنی تھا، اور دوسرے شیئر ہولڈرز کے مختلف خیالات ہو سکتے ہیں۔ لیکن کسی کو بھی اپنی سرمایہ کاری میں رائٹ ڈاؤن (کمی) پسند نہیں ہے، خاص طور پر فائیڈیلٹی جیسی کمپنیوں کو۔ لہٰذا ہم مسک کی نگرانی میں ٹوئٹر/ایکس کی کارکردگی کے بارے میں ان کے خیالات کو خاطر خواہ سمجھ سکتے ہیں۔

اب اپنے آپ سے یہ سوال پوچھیں: کیا چیز بدترین سرمایہ کاری کے فیصلے کو تبدیل کر سکتی ہے جو مسک نے کیا ہے؟ جواب ہے، مصروفیت۔

تنازع توجہ حاصل کرتا ہے، اس سے اشتہار حاصل ہوتے ہیں، اشتہاروں سے پیسہ ملتا ہے۔ تاہم اس میں کاروباری خطرہ ہے – کیونکہ کچھ لوگ سوشل میڈیا پر نظر آنے والی بےچینی سے تنگ آ کر اس سے دور ہو جاتے ہیں۔

گذشتہ سال کارپوریشنوں کے ایک گروپ نے اس وقت واضح طور پر گڑبڑ محسوس کی جب مسک نے ایک بحث کے دوران ایک یہودی مخالف ٹویٹ استعمال کی۔ انہوں نے بعد میں اعتراف کیا کہ یہ ’بےوقوفی‘ تھی، لیکن پھر بھی میڈیا کو ردعمل بڑھانے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

اگرچہ مسک دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ آزادیِ رائے کے حق میں ہیں، لیکن مجھے فکر ہے کہ وہ الٹا آزادیِ اظہار کے دشمنوں کے لیے مواد تیار کرنے کا بہترین کام کر رہے ہیں۔

ان کی ٹویٹ کے باعث ٹوئٹر کا بائیکاٹ شروع کر دیا گیا، اگرچہ کچھ معاملات میں عارضی طور پر۔ پھر مسک نے بظاہر اپنی تبصرے کو واپس لینے کی کوشش کی، اور کنزرویٹو تبصرہ نگار بین شپیرو کے ساتھ نجی طور پر اسرائیل اور آؤش وٹز-بیرکیناؤ کا دورہ کیا۔

تو مسک نسلی تناؤ کو بڑھانے میں نئے نہیں ہیں، البتہ اس بار مسلمانوں کو اس کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

اگرچہ مسک دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ آزادیِ رائے کے حق میں ہیں، لیکن مجھے یہ فکر ہے کہ وہ الٹا آزادیِ اظہار کے دشمنوں کے لیے مواد تیار کرنے کا بہترین کام کر رہے ہیں، اور اس کے لیے اپنی (بدقسمتی سے، ابھی تک مقبولیت کے لحاظ سے بےمثال) پلیٹ فارم کی طاقت کو استعمال کر رہے ہیں۔

مجھے یہ بھی پریشان کن لگتا ہے کہ اگر سڑکوں پر ہونے والے انتشار کو دہشت گردی کے برابر سمجھا جائے، جیسا کہ مسک نے کیا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی ٹوئٹر/ایکس پر دھیان نہیں دے رہا۔

یہ واضح طور پر نسل پرست، دائیں بازو کے نظریات کا منبع ہے، نیز فسادات کو منظم کرنے کی سہولت فراہم کر رہا ہے۔

پھر بھی مجھے اعتراف ہے کہ مسک اور ان کے کاروبار کے بارے میں ہمارے مشترکہ خدشات کے باوجود ہم سب اب تک ٹوئٹر/ایکس پر موجود ہیں۔

میرا خیال ہے کہ ادیبہ کیٹ موس نے مسک کے رویے پر سب سے بہتر جواب دیا۔ انہوں نے آج صبح اپنی آخری ٹویٹ میں لکھا۔ ’بس بہت ہو گئی۔ الوداع۔ @twitter آپ بہت اچھے تھے۔ یہ اب خوفناک ہے۔ میرے تمام انسانی پیروکارو، آپ مجھے انسٹاگرام پر katemossewriter کے نام سے تلاش کر سکتے ہیں۔‘

میں اعتراف کرتا ہوں کہ میرے آن لائن رہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ایک فعال کمیونٹی ہے جسے میں نے اپنے طبی مسائل، جیسے ٹائپ 1 ذیابیطس، کے حوالے سے برطانیہ کے قومی طبی ادارے این ایچ ایس سے زیادہ مددگار پایا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ بات بہت افسوس ناک ہے۔ لیکن اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ٹوئٹر/ایکس کی تاریکی میں امید کی کرن بھی موجود ہے۔

افسوس کی بات ہے کہ مسک جس چیز کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں وہ اسے مکمل طور پر ختم کر سکتی ہے۔

لیکن شاید ان کے دوسرے کاروبار اس مسئلے کو حل کریں گے۔ ٹیسلا کو سنگین مشکلات کا سامنا ہے، اور اس کے حصص کی قیمت تیزی سے گر رہی ہے۔

کیا مسک کے فسادات میں ملوث ہونے کا اصل مقصد کیا ہے؟ جو لوگ قنوطی ہیں وہ کہیں گے یہ سب پیسے کا معاملہ ہے۔

ہو سکتا ہے ٹیسلا کا مالی بحران ایلون مسک کی توجہ برطانوی مسائل سے ہٹا کر ان کی اپنی کمپنی پر لے آئے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر