انڈین الیکشن کمیشن کے سربراہ نے جمعے کو کہا ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں ایک دہائی میں پہلی بار مقامی اسمبلی کے انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔
مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کی جانب سے 2019 میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیلی اور نئی دہلی کی براہ راست حکمرانی کے نفاذ کے بعد اس متنازع علاقے میں انتخابات نہیں ہو سکے تھے۔
نئی دہلی میں صحافیوں سے بات چیت میں چیف الیکشن کمیشنر راجیو کمار نے کہا کہ ’طویل وقفے کے بعد جموں و کشمیر میں انتخابات ہونے ہیں اور ہوں گے۔‘
علاقائی اسمبلی کے لیے پولنگ 18 ستمبر سے یکم اکتوبر کے درمیان تین مرحلوں میں ہو گی۔
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ’مجموعی طور پر 87 لاکھ افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہوں گے۔ خطے بھر میں ووٹوں کی گنتی چار اکتوبر کو ایک ہی وقت میں کی جائے گی۔‘
عام طور پر اسی دن نتائج کا اعلان کیا جاتا ہے۔
مسلم اکثریتی علاقہ 1947 میں برطانوی حکمرانی سے آزادی کے بعد سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان منقسم ہے اور دونوں ملک پورے خطے کے دعوے دار ہیں۔
بعض لوگ انتخابات کو اپنے رہنماؤں کے انتخاب کا حق عوام واپس کرنے کی سمت میں ایک اہم قدم کے طور پر دیکھتے ہیں۔
لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ 90 نشستوں پر مشتمل اسمبلی کے پاس تعلیم اور ثقافت کے شعبوں صرف برائے نام اختیارات ہوں گے اور اہم فیصلے اب بھی نئی دہلی میں کیے جائیں گے۔
کچھ سخت گیر عسکریت پسند، جو کشمیر کی آزادی یا اس کے نئی دہلی کے روایتی حریف پاکستان کے ساتھ انضمام کا مطالبہ کرتے ہیں، انتخابات کے مخالفت ہیں کیونکہ وہ اسے انڈین کنڑول کو جواز فراہم کرنے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ان کا مطالبہ ہے کہ تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ آبادی والے ہمالیائی خطے کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے ریفرنڈم کروایا جائے۔
اس علاقے میں تقریباً پانچ لاکھ انڈین فوجی تعینات ہیں جو 35 سال سے جاری شورش سے نبرد آزما ہیں جس میں 1989 سے اب تک ہزاروں شہری، فوجی اور عسکریت پسند جان گنوا چکے ہیں۔
انڈیا کی قومی پارلیمان کی پانچ نشستوں کے لیے انتخابات جون میں ہوئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
الیکشن کمیشن کے مطابق ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد 58.6 فیصد رہی جو 2019 کے آخری الیکشن سے 30 فیصد زیادہ ہے اور 35 سال میں سب سے زیادہ ہے۔
اہم علیحدگی پسند رہنما، جنہوں نے پہلے انتخابات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا تھا، جیل میں ہیں۔
آخری اسمبلی انتخابات 2014 میں ہوئے جب وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے حکومت بنانے کے لیے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا۔
بی جے پی سے الگ ہونے اور حکمران اتحاد ٹوٹنے کے بعد 2018 میں ریاستی اسمبلی تحلیل کر دی گئی تھی۔
2019 میں مودی حکومت نے خطے کی جزوی خودمختاری کو ختم کرتے ہوئے اسے وفاق کے زیر انتظام ’یونین ٹیریٹری‘ میں تبدیل کر دیا۔
اس تبدیلی کی وجہ سے مجوزہ انتخابات رک گئے اور اس کے بعد سے مقامی سطح پر کوئی قانون ساز ایوان موجود نہیں اور اس کی بجائے علاقے میں گورنر کی حکومت ہے جس کا تقرر انڈین حکومت کرتی ہے۔