اندرونی خودمختاری کے بغیر کشمیر؟

اب تو کشمیر کے پاس یہ اختیار بھی نہیں کہ وہ ایک پولیس کانسٹیبل کا تبادلہ کر سکے، ہر فیصلہ دلی کے ایوانوں میں ہو رہا ہے جس کے اطلاق کے لیے خطے میں وائسرائے کو رکھا گیا ہے۔

سری نگر، 21 مئی، 2023: جی 20 اجلاس سے پہلے انڈیا کی پیراملٹری فورس گلیوں میں موجود ہے جب کہ کشمیری شہری پاس سے گزر رہے ہیں (اے ایف پی)

پانچ برس قبل انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے جموں و کشمیر کی اندرونی خودمختاری ختم کر کے اسے دو یونین ٹریٹریز میں تبدیل کر دیا۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

بی جے پی کی جانب سے اس وقت کہا گیا تھا کہ اس فیصلےسے کشمیر اور انڈیا کے بیچ میں پائی جانی والی دوری ختم ہو جائے گی اور سرمایہ کاری سے اس خطے کی تعمیر و ترقی کو یقینی بنایا جائے گا۔
 
آج جب پانچ برس گزرنے کے بعد اس فیصلے پر مقامی لوگوں سے پوچھتے ہیں تو 75 فیصد سے زائد آبادی دبے لفظوں میں اپنی بے بسی اور افسردگی کا اظہار کرتی ہے جس میں مسلمانوں کے ساتھ ہندو، بدھ اور دوسری برادریاں شامل ہیں۔ وادی میں بیشتر لوگ سمارٹ سٹی پروجیکٹ کو ترقی کا معیار بنانے پر مذاق کر رہے ہیں جبکہ جموں والے حکومت کی مسلسل بے رُخی پر رو رہے ہیں اور لداخ والے ہڑتال اور بھوک ہڑتال کر کے بھی وہ وعدے پورے نہیں کرا سکے جو آرٹیکل 370 ختم کرنے کے بدلے میں بی جے پی نے اُن سے کیے تھے۔
 
بی جے پی کسی کی پرواہ کیے بغیر اپنے ایجنڈے پر قائم ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ تیسری بار ووٹر نے اُسے دو سو 40 نشستیں دے کر صرف وینٹیلیٹر پر رکھا ہے۔

وادی میں بی جے پی ابھی تک اپنی ساخت اور بنیاد بنانے میں کامیاب نہیں دکھ رہی ہے گو کہ بعض رہنماوں نے کہا تھا کہ لاکھوں کشمیری پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں۔

اس پارٹی سے منسلک کپوارہ کے علی محمد بی جے پی کی کامیاب پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ان پانچ سالوں میں کوئی پتھر بازی نہیں ہوئی، بندوق برداروں کا قلع قمع کیا گیا، حریت کا نام و نشان مٹایا گیا، پاکستان کا کشمیر بیانیہ ہمیشہ کے لیے دفن کردیا گیا۔

’عوام کو بنیادی سہولیات کے علاوہ امن اور ترقی سے پہلی بار متعارف کرایا گیا ہے، عام لوگ امن اور شانتی کے متلاشی تھے جو بی جے پی نے یقینی بنایا۔‘

دوسری جانب مقامی اور روایتی سیاسی جماعتوں کا رونا جاری ہے کہ خطے کو سیاسی طور بے اختیار، بے آسرا اور بے یارومدگار بنا دیا گیا ہے۔

اب تو کشمیر کے پاس یہ اختیار بھی نہیں کہ وہ ایک پولیس کانسٹیبل کا تبادلہ کر سکے، ہر فیصلہ دلی کے ایوانوں میں ہو رہا ہے جس کے اطلاق کے لیے خطے میں وائسرائے کو رکھا گیا ہے۔

چند روز پہلے نیشنل کانفرنس کے نو منتخب دو رکن پارلیمان نے لوک سبھا میں جموں و کشمیر کی موجودہ صورت حال سے آگاہ کیا اور بتایا کہ بی جے پی نے خطے کو برباد کر کے مقامی آبادی کو بھکاری بننے پر مجبور کر دیا ہے۔

رُکن پارلیمان آغا روح اللہ نے پارلیمان کو بتایا کہ اُس (بی جےپی) نے ریاست کی اندرونی خودمختاری چھین کر جموں و کشمیر کو بے اختیار کر دیا اگرچہ انڈیا کے ساتھ الحاق اندرونی خودمختاری کی شرائط پر ہوا تھا۔

آغا روح اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بی جے پی نے مقرر کردہ اپنے افسروں سے دلی سے فرمان جاری کروا کر یہاں پر زمین، زراعت، روزگار اور حقوق چھیننے کے سوا کچھ نہیں کیا۔

’دو سو سے زائد مرکزی قوانین کو ہم پر ٹھونس دیا، عوام کے بنیادی حقوق سلب کر دیے ہیں، آزادی اظہار کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ بجٹ دلی کے بابو تیار کرتے ہیں اور گورنر وائسرائے کی طرح حکم چلاتے ہیں۔

’عوام اور انتظامیہ دو متوازی لکیروں کی طرح ہیں اور سکیورٹی کی حالت کا اندازہ جموں میں آئے روز ہلاکتوں اور پرتشد واقعات سے لگایا جا سکتا ہے جہاں پانچ سال پہلے امن اور سکون پایا جاتا تھا۔‘

ایک اور رکن پارلیمان میاں الطاف نے دلی کی کشمیر پالیسی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’عوام مخالف پالیسی بنا کر بی جے پی نے دلی سے قربت کے بجائے دوری پیدا کر دی ہے۔

انہوں نے بجلی کی قلت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے پانی کے ذخائر اور ہماری زمین پر بجلی کے منصوبے بنائے گئے مگر ہمیں اس بجلی سے محروم رکھا گیا۔

’پانچ سال میں جموں و کشمیر کے قدرتی ذخائر کی اتنی لوٹ مچائی گئی ہے کہ ریت کے پہاڑ یا جنگلوں کی لکڑی بھی اب ہماری نہیں رہی ہے بلکہ باہر کے ٹھیکداروں کو اس کے لائسنس دیے گئے ہیں۔ زمین کے مالکانہ حقوق یا ملازمت حاصل کرنے کے ذریعے پہلے ہی مفقود کر دیے گئے ہیں۔‘

حالیہ چند مہینوں میں جموں کے سرحدی علاقوں میں کئی پُرتشدد واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں انڈین سکیورٹی فورسز کے دو درجن سے زائد فوجی مارے گئے ہیں۔

انڈیا کی سیکورٹی ایجنسیاں پاکستانی پر الزام عائد کرتی آ رہی ہیں جبکہ پاکستان نے کئی بار اس الزام کو رد کردیا ہے۔

اس کے پس منظر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی کہتی ہیں کہ ’سابقہ مقامی حکومتوں کے دوران جموں میں محال ہے کوئی ایسا واقعہ رونما ہوتا تھا مگر پانچ برسوں میں بی جے پی نے کشمیر کے ساتھ جموں کو بھی بربادی کے دہانے پر لا کر کھڑا کر دیا ہے جہاں آئے دن دہشت گردی میں شہری اور فوجی مارے جا رہے ہیں۔‘

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم کی چند روز پہلے جاری رپورٹ میں حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’پانچ برسوں میں جموں و کشمیر میں حق اظہار رائے اور تحریر ختم کردیا گیا ہے۔ دو درجن سے زائد صحافیوں کو تفتیشی مرکز میں بلایا گیا اور حکومت مخالف رپورٹ لکھنے پر تنبیہ کی گئی جبکہ آصف سلطان سمیت کئی صحافی ابھی تک زیر حراست ہیں۔‘

صحافیوں کے بعد دوسرا حلقہ وکیل برادری ہے جو حکمران جماعت کے شدید عتاب کا شکار ہے۔

 چند ماہ قبل ہائی کورٹ بار کے سابق صدر اور معروف وکیل میاں قیوم کو حراست میں لینے کے بعد اب نذیر احمد رونگا کو گرفتار کیا گیا اور بار ایسوی سیشن کے انتخابات پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

گذشتہ پانچ برسوں میں تقریبا ایک ہزار افراد کے مارے جانے کی اطلاع ہے جن میں شہری، بندوق بردار، فوجی اور غیر مسلم شامل ہیں۔

یہ خبر میڈیا میں آئی کہ 1947 میں مشرقی پاکستان سے آنے والے 22 ہزار شرنارتھی خاندانوں کو زمین کے مالکانہ حقوق دیے گئے جو اب روزگار حاصل کرنے کے اہل بھی ہوں گے۔

کارگل جنگ کی پچیسویں سالگرہ کے موقعے پر وزیراعظم مودی نے پاکستان کو خبردار کیا کہ اُس نے اپنی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ وہ دہشت گردی کے سہارے اپنے آپ کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ جموں و کشمیر میں آزادی پسندوں کے خاتمے کے بعد اب پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کا ذکر بار بار کیا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 دلی کے سیاسیات کے ماہر ابصار غنی کہتے ہیں کہ ’اگر انتخابات میں بی جے پی کو اکثریت ملتی تو عین ممکن تھا کہ پاکستانی کشمیر پر چڑھائی کی جاتی مگر اب شاید بی جے پی اگلے انتخابات پر اپنی توجہ مرکوز کر رہی ہے کیونکہ دوسروں کے سہارے پر بننے والی یہ حکومت زیادہ دیر نہیں چلنے والی، اس لیے ابھی سے پاکستان کو موضوع بنایا جا رہا ہے۔

’چند روز پہلے میڈیا میں 600 سے زائد پاکستانی کمانڈوز کے جموں و کشمیر میں داخل ہونے کی خبریں بھی گشت کر رہی ہیں۔‘

بقول ایک کشمیری دانشور اور تجزیہ نگار ’یہ صیح ہے کہ بی جے پی نے اپنی پوری آبادی کو کشمیر کی سیاحت پر آنے پر راضی کر دیا اور لاکھوں کی تعداد میں یہاں سیاح آنے لگے ہیں جس سے یہ صنعت کچھ کچھ سنبھل رہی ہے، وادی سے ہلاکتوں کی زیادہ خبریں نہیں آتی ہیں۔

’بچے روزانہ سکول جاتے ہیں، کاروبار چل رہا ہے مگر سرکاری بندوق کو کنپٹی پر رکھ کر نہ تو یہاں کی آواز کو دبایا جا سکتا ہے اور نہ دیرپا امن قایم ہو سکتا ہے وہ بھی جب آپ نے ڈیڑھ کروڑ آبادی کو سیاسی، معاشرتی اور معاشی طور پر نا اہل بنا دیا ہے۔

’وزیراعظم نے چند روز پہلے ہی کہا تھا کہ وہ دلوں کی دوریاں مٹانے پر لگے ہیں لیکن دوسری جانب مقامی لوگوں کو بے اختیار کرنے کی پالسیوں کے اطلاق سے یہ دوریاں ایک کھائی بنتی جا رہی ہیں جو شاید دیرپا قیام امن کے لیے بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔‘

 یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر