انڈین سپریم کورٹ کی سفارشات کے مطابق جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کی ڈیڈ لائن اس سال ستمبر تک مقرر کر دی گئی ہے۔
یہ تحریر کالم نگار کی آواز میں سننے کے لیے کلک کیجیے
چند ماہ پہلے انڈیا میں منعقد پارلیمانی انتخابات کا عمل جموں و کشمیر میں بھی پرامن طور پر انجام پایا گیا جس کے بعد بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت کے بارے میں یہ خدشات دہرائے جاتے رہے ہیں کہ وہ جان بوجھ کر خطے میں مقامی حکومت کا انعقاد نہیں چاہتی بلکہ دہلی سے مسلط کردہ افسروں کے ذریعے اور اپنے من پسند فیصلے کروا کر جموں و کشمیر پر اپنی گرفت مضبوط رکھنا چاہتی ہے۔
حالیہ چند روز میں مرکزی انتخابی کمیشن کی ٹیم نے کئی بار جموں و کشمیر کا دورہ کیا اور مختلف سیاسی، تجارتی اور سکیورٹی اداروں کے ساتھ حالات کا جائزہ لیا۔
بعض رپورٹوں کے مطابق اس بار کشمیر کے بجائے جموں میں سکیورٹی کے خدشات ظاہر کیے گئے ہیں۔
جموں کے سرحدی علاقوں میں جاری پرتشدد لہر کے باعث تاثر دیا جا رہا ہے کہ سکیورٹی کی صورت حال کو بہتر بنانے کے بعد ہی انتخابات کروائے جا سکتے ہیں۔
اُدھم پور کے سوشل ورکر سنیل ڈوگرا کہتے ہیں کہ جب انتخابات ہارنے کا ڈر ہو تو حالات خراب بھی کیے جاتے ہیں۔
انتخابات ہوں یا نہ ہوں مگر سوال یہ ہے کہ اسمبلی کی شکل و صورت کیا ہوگی؟ اس کا دائرہ اختیار کیا ہوگا؟
جنہوں نے اندرونی خودمختاری ختم کرنے کے وقت دھمکی دی تھی کہ کشمیر میں اب انڈیا کا پرچم اٹھانے والا کوئی نہیں ہوگا یا ہم اندرونی خودمختاری واپس نہ ملنے تک انتخابات سے دور رہیں گے، وہ کیا بے اختیار اسمبلی کے لیے میدان میں اتریں گے؟ جب کہ چند ہفتے پہلے ہی لیفٹیننٹ گورنر کو مزید اختیارت سے مالا مال کر دیا گیا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ دو بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے انتخابات نہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ ان کی جماعتیں انتخابی عمل کا حصہ بدستور رہیں گی۔
نیشنل کانفرنس کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے چند برس پہلے انڈین میڈیا پر اعلان کیا تھا کہ وہ آرٹیکل 370 بحال ہونے تک انتخابی عمل سے دور رہیں گے، گو کہ پارٹی نے وسیع پیمانے پر انتخابی مہم سے لے کر منشور ترتیب دینے پر سب کو متحرک کردیا ہے۔
نیشنل کانفرنس کے سینیئر رہنما سلمان ساگر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ عمر عبداللہ پر پارٹی کی جانب سے دباؤ ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لیں اور ان عناصر کو شکست دیں جو نیشنل کانفرنس کی ازلی دشمن رہے ہیں اور اسے سیاسی منظر نامے سے ختم کرنے کے درپے ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے بعد نینشل کانفرنس اپنی اندرونی خودمختاری حاصل کرنے کا ایک روڈ میپ تیار کرے گی، جس پر پارٹی عمل آوری کا وعدہ کرتی ہے۔
واضح رہے کہ عمر عبد اللہ اور محبوبہ مفتی حالیہ پارلیمانی انتخابات میں شکست سے دوچار ہو گئے ہیں۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ وہ اسمبلی انتخابات میں شامل نہیں ہوں گی مگر پارٹی کارکن، منشور اور مینڈیٹ پر آج کل وہ آئے روز اجلاس بلاتی ہیں اور انتخابی مہم کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سری نگر کے ایک روزنامے کے ایڈیٹر کہتے ہیں کہ ’ان دونوں سربراہوں کو عوام نے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں مسترد کر دیا ہے اور یہ دونوں مزید خفت سے خود کو بچا رہے ہیں، پھر ان کو اکثریت ملنے کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔‘
اپنی پارٹی اور پیپلز کانفرنس سمیت کچھ مزید جماعتیں جو اندرونی خودمختاری ختم ہونے کے بعد معرض وجود میں آئیں، وہ بھی انتخابی حکمت عملی ترتیب دینے میں مشغول ہیں اور عوام کو آرٹیکل 370 بھولنے کی صلاح بھی دیتی آ رہی ہیں۔
دریں اثنا بی جے پی نے سری نگر میں اپنا مورچہ سنبھالا ہے اور نوجوانوں کو اپنی جانب مائل کرنے پر خاصی مصروف ہے۔
وادی میں اس کی پوزیشن بظاہر خراب ہے جبکہ جموں کے سرحدی علاقوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے ریزرویشن پالیسی کا سہارا اور کافی سرمایہ خرچ کر رہی ہے۔ حالیہ پارلیمانی انتخابات کے نتائج سے ظاہر ہوا کہ اس کا سرمایہ دریا برد ہوگیا ہے اور ریزرویشن پالیسی کا ثمر نیشنل کانفرنس کی جھولی میں گرا۔
مبصرین کا خیال ہے کہ بیشتر عوامی حلقوں کی نہ انتخابات میں دلچسپی نظر آرہی ہے اور نہ وہ کسی سیاست دان کے درشن کے لیے بے قرار ہیں۔ وہ اگر ایک طرف بی جے پی کی زور زبردستی کے فیصلوں سے سخت نالاں ہیں تو وہیں مقامی سیاسی جماعتوں کی نا اہلی، بد دیانتی اور اقربا پروری سے بھی تنگ آچکے ہیں۔
بعض حلقے یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ جیسا یہ سسٹم ہے اسے جاری رہنا چاہیے تاکہ کم از کم سیاست دانوں کی جی حضوری سے نجات مل سکے۔
انتخابات ضرور ہوں گے، اسمبلی بن جائے گی اور سیاسی ورکر اپنی قسمت آزمائی کریں گے مگر کیا ایک جماعت یا دو جماعتیں مل کر دو تہائی نشستیں حاصل کر پائیں گی اور کیا وہ اس اکثریت کا استعمال کر کے پانچ اگست 2019 کے فیصلے کے خلاف قرارداد پاس کریں گے اور کیا مرکزی سرکار جموں و کشمیر کو اندرونی خودمختاری، ریاست کا درجہ اور لداخ کو واپس ملا کر یہاں کے عوام کے مطالبے کو منظور کریں گی؟
اس کا انتظار سب کو ہے، ان کو بھی جو کبھی ووٹ نہیں ڈالتے اور آزادی کے لیے کوشاں رہے ہیں۔
البتہ ایک بات کا علم سب کو ہے کہ جموں و کشمیر میں دو تہائی اکثریت ملنا انڈیا کی حکومت کے لیے اچھی خبر نہیں ہوتی اور اس کی منشا انتخابی نتائج پر ہمیشہ حاوی رہی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔