کشمیر کی خود مختاری کے خاتمے کے پانچ سال: پاکستان کا ’یوم استحصال‘ منانے کا اعلان

پاکستان میں پانچ اگست (پیر کو) انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور کشمیریوں کے حق آزادی کی حمایت کے لیے انڈیا کے غیر قانونی اقدام کے خلاف ’یوم استحصال‘ منایا جائے گا۔

پانچ اگست 2019 کو اسلام آباد میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے انڈیا کے اقدام کے خلاف احتجاج کے دوران مظاہرین نعرے لگا رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان میں پانچ اگست (پیر) کو انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے پانچ سال مکمل ہونے پر اس دن کو بطور ’یوم استحصال‘ منایا جائے گا۔

سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق پانچ اگست کو خصوصی دن کے طور پر منانے کے حوالے سے اسلام آباد میں وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ایک اجلاس ہوا، جس میں فیصلہ کیا گیا کہ ’اس دن تنازع کشمیر، کشمیریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بھارت کے ٹوٹے وعدوں کو اجاگر کیا جائے گا۔‘

اس حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف کے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کی غرض سے پانچ اگست کو مظفر آباد کے دورے کا بھی امکان ہے جس میں وہ پانچ اگست 2019 کو انڈیا کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کی مذمت کے علاوہ اہم پالیسی بیان جاری کریں گے۔

پاکستان کی سرکاری نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی پی) کے مطابق ’یوم استحصال‘ کے موقع پر وفاقی سطح پر، صوبوں، پاکستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں خصوصی واک اور تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا۔

پانچ اگست 2019

پانچ اگست 2019 کو انڈین وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر کو انڈین آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت دی گئی خصوصی حیثیت یا خود مختاری کو آئینی ترامیم کے ذریعے منسوخ کر دیا تھا-

انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر دہلی کے زیر انتظام ریاست کے طور موجود کشمیر کے بڑے حصے پر مشتمل ہے، جو 1947 سے انڈیا، پاکستان اور چین کے درمیان تنازعہ کا موضوع ہے۔

اس کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد نریندر مودی کی حکومت نے کشمیر میں مواصلاتی لائنیں منقطع کر دی تھیں پانچ ماہ بعد بحال کی گئیں۔

حالات کی ممکنہ خرابی کو روکنے کی غرض سے ہزاروں اضافی سکیورٹی فورسز کے اہلکار تعینات کیے گئے اور کئی سرکردہ کشمیری سیاست دانوں کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔ ان میں دوسروں کے علاوہ سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بھی شامل تھیں۔

انڈیا کے زیر انتظام ودی کشمیر میں اس کی آئینی حیثیت کی منسوخی کے خلاف ردعمل کو مواصلات کی معطلی اور کرفیو (دفعہ 144) کے نفاذ کے ذریعے مؤثر طریقے سے دبایا گیا۔

بہت سے ہندو قوم پرستوں نے اس اقدام کو کشمیر میں امن عامہ اور خوشحالی کا اعلان کرتے ہوئے جشن منایا تھا۔

انڈیا کی سیاسی جماعتوں میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے علاوہ بہوجن سماج پارٹی، عام آدمی پارٹی، اے آئی اے ڈی ایم کے، تیلگو دیشم پارٹی، وائی ایس آر کانگریس پارٹی، بی جے ڈی، جنتا دل (متحدہ) اور شیو سینا نے کشمیر کی آئینی حیثیت کی منسوخی کی حمایت کی تھی، جب کہ انڈین نیشنل کانگریس، جموں اینڈ کشمیر نیشنل کانفرنس، جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ)، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، ترنمول کانگریس اور ڈی ایم کے نے مخالفت کی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈیا کے صدر نے آرٹیکل 370 کی طاقت کے تحت ایک حکم نامہ جاری کیا، جس میں 1954 کے موجودہ صدارتی حکم نامے کو ختم کیا گیا اور ریاست کو دی گئی خود مختاری کی تمام دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔

وزیر داخلہ امیت شاہ نے انڈین پارلیمنٹ میں تنظیم نو کا بل پیش کیا، جس میں ریاست کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ لیفٹیننٹ گورنر اور یک ایوانی مقننہ کی حکومت ہو۔ آرٹیکل 370 کے تحت عارضی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کی قرارداد اور ریاست کی تنظیم نو کے بل پر پانچ اگست 2019 کو انڈیا کے ایوان بالا (راجیہ سبھا) میں بحث ہوئی تھی اور اسے منظور کر لیا گیا۔

چھ اگست کو لوک سبھا (انڈین پارلیمان کا ایوان زیریں) میں بحث ہوئی اور تنظیم نو کے بل کو منسوخ کرنے کی سفارش کرنے والی قرارداد کے ساتھ منظور کیا گیا۔

فیصلے پر تنقید

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے انڈین حکومت کے فیصلے کو بڑے پیمانے پر تنقید اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

انڈین پارلیمان میں افراتفری کے مناظر کو جنم دیا، حزب اختلاف کے سیاست دانوں نے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے والے صدارتی حکم نامے کی مذمت کی جو ریاست جموں و کشمیر کو کافی حد تک خود مختاری دیتا ہے۔

اپوزیشن کانگریس پارٹی نے اس فیصلے کو ’تباہ کن قدم‘ قرار دیا، جب کہ کشمیر سے کانگریس کے رکن پارلیمان غلام نبی آزاد نے کہا تھا: ’شرم کی بات ہے کہ آپ نے جموں و کشمیر کو ایک غیر ہستی میں تبدیل کر دیا ہے۔‘

کشمیر میں مقیم پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک قانون ساز نے پارلیمانی سے ہٹائے جانے سے پہلے انڈین آئین کی ایک کاپی پھاڑ دی تھی۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سیاسی رہنماؤں بشمول سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ، جنہیں گھر میں نظر بند رکھا گیا تھا، نے بھی اس فیصلے پر تنقید کی تھی۔

عمر عبداللہ نے ایک بیان میں کہا تھا: ’انڈین حکومت کے آج یک طرفہ اور چونکا دینے والے فیصلے اس اعتماد کی مکمل خیانت ہیں جو جموں و کشمیر کے لوگوں نے 1947 میں ریاست کے ساتھ الحاق کے وقت انڈیا میں دی تھی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان