نمیبیا کا 83 ہاتھیوں کو مارنے کا منصوبہ بڑا عالمی تنازع بن گیا

نمیبیا 80 سے زیادہ ہاتھیوں کو ذبح کرے گا، ماہرین ماحولیات نے انتباہ دیتے ہوئے اسے ایک ’بہت بڑی تباہی‘ قرار دیا ہے جب کہ برطانوی ہائی کمشنر نے نایاب جانوروں کو مارنے کے اس منصوبے کی حمایت کی ہے۔

پورٹ الزبتھ میں 15 نومبر 2009 کو تقریباً 60 کلومیٹر دور ایڈو ایلیفینٹ نیشنل پارک میں موجود افریقی ہاتھی (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

نمیبیا کی حکومت کے 83 ہاتھیوں اور 640 دیگر جنگلی جانوروں کو مارنے کے منصوبے نے بین الاقوامی سطح پر شدید تنازع پیدا کر دیا ہے۔

یہ منصوبہ اس لیے بنایا گیا ہے تاکہ ان جانوروں کا گوشت لوگوں کو کھلایا جا سکے۔

ملک میں موجود برطانوی ہائی کمشنر بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو اس خیال کی حمایت کر رہے ہیں، لیکن ماہرین ماحولیات افریقہ کی جنگلی حیات کے لیے اسے ایک ’بہت بڑی تباہی‘ قرار دے رہے ہیں۔

مقامی وزارت ماحولیات کے مطابق، جنوبی افریقہ میں شدید قحط کی وجہ سے کچھ شہریوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے، جس کے نتیجے میں شکاریوں کو جانوروں کو مارنے کے لیے بلایا جا رہا ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ بڑے پیمانے پر (جانوروں کا) قتل عام پہلے ہی شروع ہو چکا ہے، اور ہاتھیوں کو اس ہفتے مارا جانا ہے۔

پیشہ ور شکاریوں اور حکومت سے معاہدہ کرنے والی کمپنیوں نے پہلے ہی 157 جانوروں کا شکار کیا ہے، جس سے 56,800 کلوگرام سے زیادہ گوشت حاصل ہوا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ قحط کے بعد آنے والے مہینوں میں نمیبیا کی تقریباً نصف آبادی کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

83 ہاتھیوں کے علاوہ، جن جانوروں کو قومی پارکس اور کمیونل علاقوں میں مارا جائے گا ان میں 30 دریائی گھوڑے، 60 بھینسے، 50 امپالا ہرن، 100 جنگلی نیل گائے، 300 زیبرے اور 100 بارہ سنگھے شامل ہیں۔

ماحولیات، جنگلات اور سیاحت کی وزارت نے ہاتھیوں کے شکار کے لیے چنے گئے علاقوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ کارروائی ہمارے قومی پارکس اور کمیونل علاقوں میں جنگلی جانوروں کے تحفظ پر قحط کے منفی اثرات کو کم کرنے میں مدد کرے گی۔‘

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی مداخلت نہ کی گئی تو انسان اور جنگلی حیات کے درمیان تنازعات بڑھنے کی توقع ہے۔

برطانوی ہائی کمشنر چارلس مور نے سوشل میڈیا پر لکھا: ’نمیبیا قدرتی وسائل کے استعمال میں بہت ذمہ دار ہے۔ ان میں سے کوئی بھی نسل ناپید نہیں ہو رہی، لہٰذا یہ ایک اچھا اور منطقی حل ہے جو 300,000 سے زیادہ لوگوں کی فوری ضرورت کو پورا کرنے میں مدد دے گا۔ جانوروں کو پناہ دینے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔‘

لیکن وہاں ہاتھیوں کی تعداد متنازع ہے۔ کیپ ٹاؤن کے جنگلی حیات کے تحقیقی صحافی ایڈم کروز کا کہنا ہے کہ نمیبیا میں ہاتھیوں کی تعداد کم ہو رہی ہے، اور بین الاقوامی یونین برائے تحفظ قدرتی ماحول کی ریڈ لسٹ افریقی ہاتھیوں کو نایاب یا شدید نایاب کے طور پر درجہ بند کرتی ہے۔

تاہم، ورلڈ پاپولیشن ریویو کے تازہ ترین اندازے کے مطابق نمیبیا میں 24,000 سے زیادہ ہاتھی ہیں، جو ایک سال میں 5.36 فیصد کی شرح افزائش پر ہیں۔

افریقی ماہرینِ تحفظ اور سائنس دانوں کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جانوروں کا قتل آئندہ قومی انتخابات کے باعث ہے اور اس کے پیچھے ماحولیاتی تحفظ کا کوئی جائزہ موجود ہے اور نہ ہی خوراک کی حفاظت کا۔

رپورٹ میں ماہرین کا نام پوشیدہ رکھا گیا ہے کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ انہیں شدید خطرات کا سامنا ہے، جن میں سے کئی کو دھمکیاں دی جا چکی ہیں یا ایسے اقدامات کا نشانہ بنایا گیا ہے جیسے ’اجازت ناموں کی منسوخی، ملک بدری، یا اس سے بھی بدتر۔‘

رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ’یہ جابرانہ ماحول افسوس ناک طور پر اس بات کا باعث بنتا ہے کہ میڈیا ادارے اکثر حکومتی بیانات اور حکمت عملیوں کو شائع کرتے ہیں، جبکہ ماحولیاتی ماہرین کی مخالفت میں دی جانے والی آرا کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔‘

مصنفین نے خبردار کیا ہے کہ جانوروں کا قتل سیاحت پر منفی اثر ڈالے گا، اور یہ کہ مویشی قومی پارکس میں چرنے نہیں جاتے، لہٰذا وہاں جانوروں کو مارنا ان کسانوں کی مدد نہیں کرے گا جو ایسے علاقوں سے باہر ہیں، جیسا کہ وزارت اصرار کر رہی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا: ’ہاتھی جب قتل عام کا شکار ہوتے ہیں، جس میں عام طور پر پورے کنبوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے بشمول (ہاتھیوں کے) چھوٹے بچوں کے، اس سارے معاملے کو یہ چیز مزید خراب کرتی ہے، انسان اور ہاتھی کے درمیان تنازع بڑھتا ہے نہ کہ کم ہوتا ہے۔ وہ ہاتھی جو بچ جاتے ہیں، یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ اپنے کنبے کے دیگر جانوروں کو گولی لگتے دیکھ کر دیرپا صدمے کا شکار ہوتے ہیں۔‘

وزارت نے اپنے اعلان میں کہا: ’یہ عمل ضروری ہے اور ہمارے آئینی مینڈیٹ کے مطابق ہے جہاں ہمارے قدرتی وسائل کو نمیبیائی شہریوں کے فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

’یہ اس بات کی بھی ایک بہترین مثال ہے کہ جنگلی حیات کا تحفظ واقعی فائدہ مند ہے۔

’جنگلی جانوروں کے گوشت کے فوائد دیہی علاقوں کی کمیونٹیوں تک بھی بڑھائے جا رہے ہیں، خاص طور پر ان لوگوں تک جو پناہ گاہوں میں رہتے ہیں۔

ڈاکٹر کروز نے بی بی سی کو بتایا: ’یہ (مدعا) کچھ حد تک توہین آمیز ہے کہ جانوروں کا تھوڑا سا گوشت ان بھوکے، غریب لوگوں کی طرف اچھال دیا جائے جو روزمرہ کی ضروریات پر گزر بسر کر رہے ہیں اور جن کے پاس روزگار کے مواقع یا عمومی سماجی ترقی کے حوالے سے کوئی بامعنی ترقی نہیں ہو رہی۔‘

ہاتھیوں کے ماہر حیاتیات ڈاکٹر کیتھ لنڈسے کے مطابق، یہ قتل صرف قلیل مدتی راحت فراہم کرے گا اور جنگلی حیات پر انحصار کرنے کی خطرناک مثال قائم کرے گا تاکہ انسانی مسائل حل کیے جا سکیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا: ’اگر اس عمل کو اپنایا اور معمول بنا لیا گیا، تو یہ بہت ممکن ہے کہ جنگلی حیات کی کمزور آبادیوں پر مسلسل دباؤ پیدا ہو، جو قدرتی مسکن کے کم ہوتے علاقوں میں ناقابلِ برداشت ہو گا۔‘

’اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ اس عمل سے پڑوسی ممالک کو بھی ایسا کرنے کے لیے ایک مضبوط دلیل ملے گی، جس سے ایک بہت بڑی تباہی کا آغاز ہو سکتا ہے۔‘

برطانیہ میں قائم ایکشن فار ایلیفینٹس تنظیم نے خبردار کیا کہ افریقہ بھر میں ’غیر ذمہ دار حکومتوں‘ کی طرف سے ’اس سے بھی بڑے پیمانے پر اسی طرح کے منصوبے‘ چلائے جا سکتے ہیں۔

تنظیم کا کہنا تھا: ’اگر افریقہ کے دیگر ممالک، جہاں جنگلی حیات پہلے ہی کم ہو رہی ہے، دیکھتے ہیں کہ اس بار کوئی کارروائی نہیں کی گئی، کوئی احتجاج نہیں کیا گیا، اور کوئی نتائج کا سامنا نہیں کرنا پڑا، تو وہ بھی یہی کام کرنے کی ہمت کریں گے۔‘

ڈیزرٹ لائنز ہیومنز ریلیشنز ایڈ تنظیم کے ازاک سمتھ نے وزارت کو ایک خط میں لکھا: ’یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ انسان اور جنگلی حیات کے تنازعے کا مسئلہ ایک بہت ہی کارآمد ہتھیار اور بہانہ بن چکا ہے تاکہ بدعنوانیوں اور تاریک ایجنڈوں کو آسانی سے چھپایا جا سکے، جن میں سے ایک یہ ہے کہ ایسے شکار کو جائز قرار دینا جب کہ اس کا جواز نہیں بنتا۔‘

انہوں نے کہا کہ (نمیبیا کے) مغربی علاقوں کی کمیونٹیز زیادہ غربت اور بھوک کا شکار ہیں نسبتاً ان کمیونٹیوں کے جو (اس شکار سے) گوشت حاصل کریں گی۔

دی انڈپینڈنٹ نے وزارت ماحولیات، جنگلات اور سیاحت سے تبصرے کے لیے رابطہ کیا ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات