جنوبی انڈیا میں دریا پار کرنے والے جنگلی ہاتھیوں نے ویڈیو بنانے والے ٹیلی ویژن کیمرہ مین کو روند کر مار ڈالا۔
34 سالہ اے وی مکیش جو ملیالم زبان کے ٹیلی ویژن متھروبھومی کے کالم نگار اور کیمرہ مین تھے، بدھ کو ریاست کیرالہ کے ضلع پالکڑ میں واقع جنگل میں ہاتھیوں کی فلم بندی کر رہے تھے کہ ایک ہاتھی نے ان پر حملہ کر دیا۔
یہ واقعہ جانوروں اور انسان کے درمیان لڑائی کے سلسلے میں تازہ ترین ہے جس نے ریاست میں لوگوں میں بڑھتے ہوئے غصے کو ہوا دی ہے۔ تاہم حکومت نے موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی عدم توازن کو اس قسم کے بڑھتے ہوئے واقعات کا سبب قرار دیا ہے۔
اوم کام نیوز کے مطابق مکیش دریا پار کرتے ہاتھیوں کے ایک جھنڈ کی ویڈیو بنا رہے تھے۔ اس دوران ان کا پیر پھسلا اور وہ گر گئے اور ایک مشتعل ہاتھی کی توجہ ان کی جانب ہو گئی۔
ہاتھی کے حملے میں مکیش کو شدید چوٹیں آئیں اور انہیں فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا اور طبی امداد فراہم کی گئی۔ تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔
ابھی تک حملے کی تفصیلات اور مکیشن کو لگنے والے زخموں کی شدت معلوم نہیں۔
جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے وزیر اے کے سسیندرن نے ویڈیو صحافی کی موت پر افسوس کا اظہار کیا اور ’معاشرے کی جانب سے نظرانداز کیے گئے لوگوں کے دکھوں اور مصائب کی طرف عوام کی توجہ مبذول کروانے‘ پر ان کی تعریف کی۔
سسیندرن کے بقول: ’ہمیں اس واقعے کی خبر پر بہت زیادہ دکھ ہوا۔ محکمہ جنگلات کے عملے نے اس واقعے کی اطلاع ملنے کے بعد ان کی جان بچانے بھرپور کوشش کی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپنے گھنے جنگلات کی وجہ سے مشہور انڈین ریاست کیرالہ میں جانوروں کے حملے میں انسانی جانوں کا مسلسل ضیاع بڑا مسئلہ ہے۔
کیرالہ انڈیا کے زمینی رقبے کا 1.2 فیصد ہے۔ اس میں ملک کے 2.3 فیصد جنگلات پائے جاتے ہیں۔
اس سے قبل سسیندرن انسانوں اور جانوروں کے درمیان لڑائی کے بڑھتے ہوئے واقعات کو قدرتی ماحول کی تباہی اور ماحول کی تبدیلی کا نتیجہ قرار دے چکے ہیں۔
10 فروری کو کیرالہ کے پہاڑی ضلع وائناڑ میں 42 سالہ کسان اجیش جوزف کو جنگلی ہاتھی نے کچل کر مار دیا۔ اس ہاتھی کے جسم کے ساتھ ریڈیو ٹرانسمیٹر لگایا گیا تھا۔
صرف تین ہفتے میں اس ضلعے میں ہاتھی کے حملے میں یہ دوسری موت تھی۔
ان واقعات کی وجہ سے مقامی لوگوں میں اشتعال پیدا ہوا ہے۔ وہ اس طرح کے واقعات سے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہوئے وقتاً فوقتاً احتجاج کرتے رہے ہیں۔
© The Independent