زمین سے باہر زندگی کا ’مضبوط ترین ثبوت‘ سامنے آ گیا: سائنس دان

سائنس دانوں کو کسی اور سیارے پر غیر زمینی زندگی کی موجودگی کا اب تک کا سب سے واضح اشارہ ملا ہے، لیکن وہ ابھی پوری طرح پرجوش نہیں۔

زمین سے 120 نوری سال دور سیارہ کے ٹو 18 بی کی خیالی تصویر (یونیورسٹی آف کیمبرج)

سائنس دانوں کو کسی اور سیارے پر غیر زمینی زندگی کی موجودگی کا اب تک کا سب سے واضح اشارہ ملا ہے، لیکن وہ ابھی پوری طرح پرجوش نہیں۔

ممکن ہے کہ یہ دریافت مستقبل میں نظام شمسی سے باہر کی زندگی کی پہلی نشانی کے طور پر دیکھی جائے، کیوں کہ سائنس دانوں نے ایسی گیسیں دریافت کی ہیں جو موجودہ معلومات کے مطابق صرف حیاتیاتی عمل سے پیدا ہوتی ہیں۔

اسی لیے یہ نتائج ایک ’بایو سگنیچر‘ یعنی ممکنہ زندگی کی علامت دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم محققین کو ابھی بہت سا کام کرنا باقی ہے تاکہ وہ یقینی طور پر کچھ کہہ سکیں۔

سائنس دانوں نے کیا دریافت کیا؟

یہ نئی تحقیق سیارے کے ٹو۔18 بی پر کی گئی جس کا وزن زمین کے مقابلے میں 8.6 گنا زیادہ ہے۔ وہ زمین سے 2.6 گنا بڑا اور تقریباً 124 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ پہلے ہی ایک دلچسپ سیارہ سمجھا جاتا تھا کیوں کہ یہ اپنے ستارے کے گرد ’قابل رہائش علاقے‘ میں گردش کر رہا ہے، یعنی وہ جگہ جہاں پانی مائع حالت میں موجود رہ سکتا ہے، نہ فوراً جم جاتا ہے اور نہ ہی بخارات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

گذشتہ چند برسوں میں یہ سیارہ مزید دلچسپی کا باعث بنا۔ خلائی دور بین جیمز ویب کے سابقہ مشاہدات میں اس سیارے کے فضائی ماحول میں میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیسیں دریافت ہوئیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی ایسے سیارے کی فضا میں کاربن پر مبنی مالیکیولز پائے گئے جو اپنے ستارے کے قابل رہائش دائرے میں موجود ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن اب محققین نے دو اور گیسز دریافت کی ہیں یعنی ڈائی میتھل سلفائیڈ (ڈی ایم ایس) اور ڈائی میتھل ڈائی سلفائیڈ (ڈی ایم ڈی ایس)۔ زمین پر اگر یہ گیسیں موجود ہوں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ کسی حیاتیاتی عمل سے پیدا ہو رہی ہیں۔

یہ خلائی مخلوق کی طرف اشارہ کیوں سمجھا جا رہا ہے؟

اس عجیب و غریب ڈیٹا کی فی الحال سب سے بہتر توجیہ یہی لگتی ہے۔ ہماری موجودہ معلومات کے مطابق، کم از کم زمین پر، ڈی ایم ایس اور ڈی ایم ڈی ایس  صرف جاندار اجسام کے ذریعے بنتی ہیں، اور زیادہ تر کائی انہیں پیدا کرتی ہے۔

کیمبرج یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف ایسٹرونومی سے وابستہ اس تحقیق کے مرکزی مصنف ماہر فلکیات نکو مدھو سدھن نے کہا: ’خلائی دور بین جیمز ویب سے حاصل ہونے والے تمام سابقہ اور حالیہ ڈیٹا کو جو واحد منظرنامہ مکمل طور پر سمجھا سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ کے ٹو۔18 بی  پر پانی اور ہائیڈروجن گیس پائی جاتے ہیں اور وہاں زندگی موجود ہے۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’تاہم ہمیں کھلے ذہن کے ساتھ سوچتے رہنا چاہیے اور دیگر امکانات کا جائزہ لینا بھی جاری رکھنا چاہیے۔‘

کیا خلائی مخلوق واقعی موجود ہے؟

فی الحال کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ تحقیق میں شامل سائنس دانوں کے ساتھ ساتھ اس سے وابستہ نہ ہونے والے ماہرین نے بھی سب کو احتیاط برتنے کا مشورہ دیا۔ دستیاب ڈیٹا صرف ممکنہ حیاتیاتی عمل کی علامت ہے، یہ کسی جاندار مخلوق کی براہ راست دریافت نہیں۔

اس بارے میں یقینی طور پر کچھ کہنے سے پہلے مزید تحقیق درکار ہے اور خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ کام جلد شروع ہونے والا ہے۔

امریکی ریاست ٹیکسس میں ساؤتھ ویسٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے خلائی سائنس ڈویژن کے مرکزی سائنس دان کرسٹوفر گلین نے کہا: ’کے ٹو۔18 بی سے حاصل ہونے والا وسیع ڈیٹا اسے بے حد دلچسپ سیارہ بناتا ہے۔ یہ تازہ ترین معلومات ہمارے فہم میں قیمتی اضافہ ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پھر بھی ہمیں ڈیٹا کو بھرپور احتیاط اور جانچ کے ساتھ پرکھنے کی ضرورت ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس ڈیٹا کے آزادانہ تجزیے کا کام اگلے ہفتے ہی شروع ہو جائے گا۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق