پاکستان میں پولیو ویکسین مہم کے 30 سال مکمل، خاتمہ کیوں نہ ہوا؟

حالیہ برس 2024 میں پاکستان میں انسداد پولیو ویکسین سرکاری طور پر دیے جانے کو 30 سال مکمل ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں سرکاری طور پر قطرے والی پولیو ویکسین کا آغاز 1994 میں ہوا تھا۔

پاکستان کے 115 اضلاع میں تین کروڑ سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی مہم نو ستمبر سے 15 ستمبر تک چلائی جا رہی ہے۔ اس سال پاکستان میں پولیو کے 17 مثبت کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

رواں سال بلوچستان کے ڈیرہ بگٹی، قلعہ عبداللہ، کوئٹہ، جھل مگسی، ژوب، قلعہ سیف اللہ، اور خاران سے ایک، ایک کیس سمیت 12 پولیو کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ بلوچستان میں گزشتہ دو سالوں میں پولیو کا ایک بھی مثبت کیس سامنے نہیں آیا تھا، مگر اس سال آٹھ مہینوں میں 12 مثبت کیس سامنے آنے کے بعد وائرس کی ترسیل کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

پنجاب میں حالیہ برس پولیو کا ایک مثبت کیس سامنے آیا ہے، یہ کیس چکوال ضلع سے رپورٹ ہوا ہے، جہاں گزشتہ ایک دہائی سے ایک بھی کیس سامنے نہیں آیا تھا۔ پنجاب میں گزشتہ تین سالوں کے دوران ایک بھی کیس سامنے نہیں آیا تھا۔

سندھ میں اس سال تین مثبت کیس رپورٹ ہو چکے ہیں۔ سندھ میں شکارپور سے ایک، کراچی کیماڑی سے ایک، اور حیدرآباد سے ایک کیس رپورٹ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اسلام آباد میں تقریباً 16 سال بعد اس سال نیا کیس رپورٹ ہوا، جبکہ خیبر پختونخوا سے کوئی بھی کیس نہیں آیا، جہاں سے پچھلے سال چار کیس آئے تھے۔

نیشنل ایمرجنسی آپریشنز سینٹر سندھ کے ترجمان نوفل نقوی کے مطابق، ’تشویش کی بات یہ ہے کہ سندھ کے مختلف علاقوں سے لیے گئے ماحولیاتی نمونوں میں بھی پولیو وائرس کی موجودگی ظاہر ہو رہی ہے، جس سے وائرس کی ترسیل کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔‘

نوفل نقوی کے مطابق نو ستمبر سے 15 ستمبر تک چلنے والی انسداد پولیو مہم کے دوران سندھ کے 30 اضلاع میں پانچ سال سے کم عمر کے 94 لاکھ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں گے۔ اس مہم کی کامیابی کے لیے 70,000 سے زائد فرنٹ لائن ورکرز حصہ لے رہے ہیں، جو گھر گھر جا کر، سکولوں اور ہسپتالوں میں بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائیں گے۔

حالیہ برس انسداد پولیو پروگرام کی جانب سے ملک کی 40 یونین کونسلز کو وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے انتہائی رسک والی یونین کونسلز قرار دیا گیا تھا۔ جن میں کراچی کی آٹھ یوسیز، بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ کی پانچ، کوئٹہ کی چھ، اور پشین کی تین یونین کونسلز، جبکہ پشاور کی 18 یونین کونسلز شامل ہیں۔

عالمی ادارہ صحت نے گزشتہ سال کی دوسری ششماہی کے بعد سے ملک میں پولیو کے مثبت کیسز میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

عالمی سطح پر پولیو وائرس کی تاریخ

انسداد پولیو پروگرام پاکستان کی ویب سائٹ کے مطابق، بیسویں صدی کے اوائل میں پولیو وائرس صنعتی ممالک میں سب سے زیادہ خوف زدہ کرنے والی بیماریوں میں سے ایک تھا۔ یہ وائرس صنعتی ممالک میں ہر سال لاکھوں بچوں کو مفلوج کر دیتا تھا۔ 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں مؤثر ویکسین متعارف ہونے کے بعد صنعتی ممالک میں پولیو کو قابو میں کر لیا گیا اور ان ممالک میں اس وائرس کو صحت کی ہنگامی صورتحال کے طور پر تقریباً ختم کر دیا گیا۔

ترقی پذیر ممالک میں پولیو کو ایک بڑے مسئلے کے طور پر تسلیم کرنے میں کچھ زیادہ وقت لگا۔ 1970 کی دہائی کے دوران جسمانی معذوری کے سروے کے دوران ظاہر ہوا کہ یہ بیماری ترقی پذیر ممالک میں بھی عام تھی۔

1970 کی دہائی میں دنیا بھر میں قومی حفاظتی ٹیکوں کے پروگراموں کا حصہ بناتے ہوئے معمول کے مطابق پولیو کی ویکسینیشن متعارف کروائی گئی، جس سے کئی ترقی پذیر ممالک میں اس بیماری کو کنٹرول کرنے میں مدد ملی۔

1988 میں پولیو ہر روز دنیا بھر میں 1,000 سے زیادہ بچوں کو مفلوج کر رہا تھا۔ 1988 سے جب عالمی سطح پر پولیو کے خاتمے کی مہم کا آغاز ہوا، تب سے عالمی سطح پر پولیو کی شرح میں 99 فیصد کمی آئی ہے۔

اس عالمی مہم کے تحت اب تک 200 سے زائد ممالک اور دو کروڑ رضاکاروں کے تعاون اور 11 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ کی بین الاقوامی سرمایہ کاری کے نتیجے میں 2.5 ارب سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے ٹیکے لگائے جا چکے ہیں۔

عالمی سطح پر اتنی خطیر رقم اور رضاکاروں کی محنت کے باوجود پاکستان اور افغانستان دنیا کے وہ دو ممالک ہیں جہاں پولیو وائرس کی منتقلی کو تاحال ختم نہیں کیا جا سکا ہے۔

پاکستان میں پولیو ویکسین کب سے دی جا رہی ہے؟

حالیہ برس 2024 میں پاکستان میں انسداد پولیو ویکسین سرکاری طور پر دیے جانے کو 30 سال مکمل ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں سرکاری طور پر قطرے والی پولیو ویکسین کا آغاز 1994 میں ہوا تھا۔

1994 میں اس وقت کی وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے اپنی سب سے چھوٹی بیٹی آصفہ بھٹو کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلا کر پاکستان میں انسداد پولیو مہم کا آغاز کیا تھا۔ اپنی بیٹی کو پولیو کے قطرے پلا کر، اس وقت کی وزیر اعظم نے یہ پیغام دیا تھا کہ یہ ایک محفوظ ویکسین ہے، جسے سب اپنے بچوں کو پلا سکتے ہیں۔

اس وقت پاکستان میں پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ 1994 سے اب تک تقریباً ہر سال ہی انسداد پولیو کی ویکسین کی مہم چلائی جاتی ہے، مگر اس مہم کے 30 سال مکمل ہونے کے باوجود پاکستان پولیو وائرس سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکا۔

کئی دہائیوں کی پولیو ویکسین مہم کے باوجود پاکستان پولیو سے چھٹکارا کیوں حاصل نہیں کر سکا؟

انسداد پولیو پروگرام پاکستان کی ویب سائٹ کے مطابق، پاکستان کے مختلف علاقوں میں جاری تنازعات، سیاسی عدم استحکام، مشکل سے پہنچنے والے علاقوں اور ناقص بنیادی ڈھانچے کی وجہ سے اس بیماری کو ختم کرنے میں چیلنجز کا سامنا ہے۔ ہر ملک میں منفرد مسائل ہوتے ہیں جن کے لیے مقامی حل کی ضرورت ہوتی ہے۔

2013 میں عالمی پولیو کے خاتمے کی مہم نے پولیو کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے اپنا سب سے جامع سٹریٹجک منصوبہ دیا تھا، جس میں پولیو کی موجودگی والے آخری علاقوں سے اس کا خاتمہ کرنے اور پولیو سے پاک دنیا کو برقرار رکھنے کے اقدامات واضح طور پر درج کیے گئے تھے۔ مگر پاکستان میں تاحال اس پر مکمل عمل نہیں ہو سکا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے علاوہ کچھ لوگ انسداد پولیو ویکسین کو مذہب مخالف سمجھتے ہیں اور ویکسین اپنے بچوں کو پلانے سے انکار کرتے ہیں۔ اس کے بعد پولیو کے ایمرجنسی آپریشنز مرکز اور محکمہ صحت نے متعدد دینی علما سے فتویٰ بھی لیا، جن کے تحت پولیو ویکسین دین کے احکامات کے مخالف نہیں اور لوگ اپنے بچوں کو پولیو ویکسین پلا سکتے ہیں۔

نیشنل ایمرجنسی آپریشنز سینٹر کے کوآرڈینیٹر کیپٹن (ر) محمد انوارالحق کے مطابق، ’کچھ لوگ گھر میں بچوں کی موجودگی کے باوجود کہتے ہیں کہ بچے گھر پر موجود نہیں۔ ایسے بچوں کو ویکسین دینے کے لیے مخصوص ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔‘

کیپٹن (ر) محمد انوارالحق نے تسلیم کیا کہ پاکستان سے پولیو کے ختم نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں انسداد پولیو ویکسین کی مہم بہتر طریقے سے نہیں چلائی گئی۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کیپٹن (ر) محمد انوارالحق نے کہا: ’اگر پاکستان بھر میں ایک ساتھ اچھی مہم چلے، جس میں 95 فیصد سے زائد بچوں کو ویکسین پلا دی جائے، تو پاکستان سے پولیو وائرس مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔

’عام طور پاکستان میں ہوتا یہ ہے کہ ایک صوبے میں اچھی مہم چلائی جاتی ہے تو دوسرے صوبے میں اتنی موثر مہم نہیں چلتی۔ لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ آنا جانا ہوتا ہے۔

’جیسے کراچی جہاں ملک بھر سے بچے آتے ہیں۔ جہاں اچھی مہم نہیں چلتی وہاں کے بچے وائرس لے کر آتے ہیں۔ اس طرح وائرس ان علاقوں تک پہنچ جاتا ہے، جہاں اچھی مہم چلی ہوئی ہوتی ہے۔‘

ایک سوال کہ عام خیال ہے کہ افغانستان سے آنے والے لوگوں کے باعث وائرس کی منتقلی زیادہ ہورہی ہے؟ کے جواب میں کیپٹن (ر) محمد انوارالحق نے کہا : ’ہم ستمبر اور اکتوبر میں جو پاکستان میں انسداد پولیو مہم چلا رہے ہیں تو بیک وقت افغانستان میں بھی مہم چلے گی۔ تاکہ اس پر قابو پایا جا سکے۔‘

واضح رہے کہ ماضی میں پاکستان کے کچھ علاقوں میں پولیو ٹیم پر قاتلانہ حملے ہوئے اور متعدد پولیو ورکرز جان سے گئے مگر اس کے باجود پولیو مہم رکنے کے بجائے جاری رہی اور اب پولیو ٹیم کی سیکورٹی کے لیے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اہلکار بھی ساتھ ہوتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان