پاکستان میں انسداد پولیو پروگرام کے نیشنل کوآرڈینیٹر ڈاکٹر شہزاد بیگ کا نام حال ہی میں ٹائم میگزین کی 100 با اثر شخصیات کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، جو اسے ’فرنٹ لائن پولیو ہیلتھ ورکرز کی محنت کا نتیجہ‘ قرار دیتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اسی سلسلے میں ان کے ساتھ ایک خصوصی نشست رکھی، جس کے دوران پولیو پروگرام پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔
ڈاکٹر شہزاد بیگ نے بتایا کہ اس فہرست میں ان کا نام آنا ان کے، خاندان اور ملک کے لیے خوشی کا مقام ہے کیونکہ وہ اس فہرست میں آنے والے واحد پاکستانی ہیں۔
بقول ڈاکٹر شہزاد انہوں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ انہیں یہ اعزاز ملے گا بلکہ ادارے کی جانب سے ای میل آنے پر انہیں یہ مذاق لگا جسے انہوں نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ تاہم جب اس کا اعلان ہوا تب انہیں اس بات کا یقین ہوا کہ ٹائم 100 لسٹ میں ان کا نام شامل ہے۔
صحت کے شعبے میں کیسے آئے؟ اس سوال پر ڈاکٹر شہزاد نے بتایا کہ جب وہ آسٹریلیا میں یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز سے پبلک ہیلتھ پڑھ کر آئے تو انہوں نے پاکستان کے ڈبلیو ایچ او پولیو پروگرام میں شمولیت اختیار کی اور اس کے بعد نائیجیریا چلے گئے۔ نائیجیریا میں 13 سال پولیو پر کام کرنے کے بعد جب اسے پولیو فری قرار دیا گیا تو انہوں نے پاکستان آنے کا سوچا کیونکہ ان دونوں ممالک میں ایک ہی طرز کے چیلنجز کا سامنا تھا۔
پاکستان واپسی پر ڈاکٹر شہزاد 2021 میں پولیو پروگرام میں بطور سربراہ شامل ہوئے۔ وہ گذشتہ 21 برس سے پولیو پر کام کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر شہزاد کے مطابق ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج پاکستان سے پولیو کا خاتمہ کرنا ہے۔ ’اگر نائیجیریا سے پولیو ختم ہو سکتا ہے تو ایسا پاکستان میں بھی ممکن ہے۔‘
پولیو کے خاتمے کے لیے جو اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، کیا وہ کافی ہیں؟‘ اس سوال پر انہوں نے جواب دیا کہ وہ لفظ ’کافی‘ کا استعمال نہیں کریں گے تاہم یہ اقدامات درست سمت میں ہیں۔ پولیو پروگرام 98 یا 99 فیصد بھی کامیاب ہو تو اس کے ساتھ ’ناکامی‘ کا لفظ جوڑا جاتا ہے۔ یہ بات بھی دھیان میں رکھنا ضروری ہے کہ آخری ایک فیصد کو حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اگر ٹائم 100 لسٹ میں ان کا نام شامل کیا گیا تو اس کا مطلب ہے کہ پروگرام کامیاب ہے۔
ملک سے پولیو کا خاتمہ نہ ہونے کی وجہ سے متعلق سوال پر ڈاکٹر شہزاد نے کہا کہ رواں سال دو ہدف مقرر کیے گئے ہیں۔ پہلا مقامی وائرس کا خاتمہ تھا اور 15 نومبر 2023 سے کیسز یا ماحولیاتی نمونوں میں مقامی وائرس نہیں ملا۔ دوسرا ہدف ملک میں بیرون ملک سے آئے وائرس کا نہ ہونا ہے۔ پاکستان کے علاوہ افغانستان ہی واحد ملک ہے جہاں پولیو وائرس موجود ہے اور ہمارا ہمسایہ ملک بھی ہے۔ آخری مرتبہ گذشتہ برس دسمبر میں اس کی موجودگی کا علم ہوا تھا۔
ڈاکٹر شہزاد نے کہا: ’کراچی، پشاور اور کوئٹہ وہ تین شہر ہیں جہاں سے پولیو وائرس کی ماحولیاتی نمونوں میں موجودگی کو ختم نہیں کیا جا سکا۔ ہمارا ہدف دسمبر کے آخر تک اسے ختم کرنا ہے، ہم اسے ختم کریں گے۔ سال 2025 سے زیرو پولیو پاکستان کا سفر شروع کریں گے تاکہ دسمبر میں ہمیں پولیو فری قرار دیا جا سکے۔‘
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اور افغانستان میں بارڈر کے ساتھ واقع اضلاع پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وہاں ہر کسی کو ویکسین لگائی جانی چاہیے۔ پاکستان میں داخل ہونے کے لیے 12 داخلہ پوائنٹس جن میں چمن اور طورخم بھی شامل ہیں، وہاں تمام افراد کو ویکسین لگانی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ان 12 علاقوں سے جو لوگ کراچی، کوئٹہ اور پشاور کی طرف جاتے ہیں، ان کے سفری راستوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے تاکہ انہیں ویکسین لگائی جا سکے۔ یہی وہ افراد ہیں جو وائرس لے کر آ رہے ہیں۔
ڈاکٹر شہزاد بیگ نے بتایا کہ ملک بھر سے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کے سب سے زیادہ نمونے کراچی سے سامنے آ رہے ہیں۔ کراچی کے بعد پشاور جبکہ کوئٹہ بلاک (چمن، پشین، قلعہ عبداللہ) تیسرے نمبر پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک وقت میں خیال کیا جاتا تھا کہ پاکستان سے پولیو وائرس ختم ہوگا تو افغانستان سے بھی ختم ہو جائے گا، تاہم یہ درست نہیں۔
بقول ڈاکٹر شہزاد بیگ: ’پاکستان اور افغانستان کے درمیان ’ہیلتھ ڈائیلاگ‘ ہوگا جس میں سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات بھی کردار ادا کریں گے تاکہ دونوں ممالک صحت کے ایجنڈے پر اکٹھے بیٹھیں۔
’پاکستان کی جانب سے ہیلتھ ڈائیلاگ کا عمل شروع ہو گیا ہے اور رواں سال ستمبر میں ہیلتھ ڈائیلاگ کا انعقاد متوقع ہے۔‘
پاکستان اور افغانستان میں حالیہ کشیدگی کے بعد پولیو پروگرام متاثر ہونے کے سوال پر ڈاکٹر شہزاد بیگ نے کہا کہ اس صورت حال سے پولیو پروگرام پر کوئی اثر نہیں پڑا کیونکہ اس پر تعاون پہلے کی طرح ہی ہے۔
انہوں نے پولیو ہیلتھ ورکرز پر حملوں سے متعلق سوال پر کہا کہ ’یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے، تاہم ان کا ادارہ زخمی یا مارے جانے والے ورکرز کی مالی مدد کرتا ہے۔‘