پاکستان کی کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی گذشتہ روز لاہور میں لمز میں آکسفورڈ یونیوسٹی میں پاکستانی طلبہ کی نمائندگی بڑھانے سے متعلق ایک خصوصی پینل ڈسکشن بعنوان ’21 ویں صدی کے لیے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تعمیر‘ کا حصہ بنیں۔
آکسفورڈ پاکستان پروگرام (او پی پی) کے اشتراک سے لمز میں سید احسن اینڈ سید مراتب علی سکول آف ایجوکیشن (ایس او ای) کے زیر اہتمام منعقدہ اس پینل ڈسکشن میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔
ایک بیان کے مطابق ڈاکٹر طلحہ جمال پیرزادہ نے پینل کا تعارف کرواتے ہوئے کہا، ’آکسفورڈ پاکستان پروگرام (او پی پی) کا ایک بنیادی مقصد یہ ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں پاکستانی نمائندگی بڑھائی جائے اور اسے پاکستان میں بھی متعارف کرایا جائے اور یہ گفتگو اسی سلسلے کی اہم کاوش ہے۔‘
ایونٹ میں ہونے والی زیادہ تر ڈسکشن معیاری تعلیم تک رسائی پر مشتمل تھی۔ ملالہ یوسفزئی نے پاکستان میں تعلیم کی رسائی بڑھانے بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور کہا، ’پاکستان میں لڑکیوں کا مستقبل معیاری تعلیم پر منحصر ہے۔ لڑکیوں کے لیے یہ پہلو حوصلہ افزائی کا باعث ہے کہ وہ خواتین کو اپنے پیشہ ورانہ کیریئر میں ترقی کرتے ہوئے دیکھ رہی ہیں۔ خواتین کی کامیابیاں لڑکیوں کے حوصلوں کو جلا بخش رہی ہیں۔`
اس بحث میں ملالہ یوسفزئی کے علاوہ لمز کے فاؤنڈنگ پرو چانسلر سید بابر علی، پرنسپل لیڈی مارگریٹ ہال پروفیسر سٹیفن بلیتھ اور پرنسپل لیناکر کالج ڈاکٹر نک براؤن، اور لمز میں ایس او ای کے ڈین ڈاکٹر فیصل باری نے بھی اظہار خیال کیا۔
پینل ڈسکشن میں نظامت کا فریضہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ڈیولپمنٹ اکنامکس کے پروفیسر اور او پی پی کے شریک بانی ڈاکٹر عدیل ملک نے سرانجام دیا۔
لمز کے وائس چانسلر ڈاکٹر ارشد احمد نے پاکستان کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے میں غیر معمولی سیکھنے کے کردار پر زور دیا اور بتایا کہ کس طرح یونیورسٹی کے لرننگ ودآؤٹ بارڈرز کے فلسفے نے متعدد قومی اعلیٰ اثرات میں مدد فراہم کی ہے۔ ’لرننگ ودآؤٹ بارڈرز سیکھنے کے عمل کو نہ صرف گورننس اور فیصلہ سازی میں بلکہ لمز کے مشترکہ اخلاقیات میں بھی اولیت دینے کے لیے بنایاگیا ہے۔“ انہوں نے مزید کہا، ”غیر معمولی سیکھنے کی نشاندہی کرنے والے تین عوامل اور اس کے اثرات کو مسائل حل کرنے میں مددگار ہونے کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے جو کہ لمزکے اقدار پر مبنی ہیں۔“
آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر سٹیفن بلیتھ نے کہا کہ ’آکسفورڈ یونیورسٹی اور لیڈی مارگریٹ ہال نے رکاوٹوں میں کمی لانے کے لیے زبردست کام کیا ہے تاکہ انتہائی باصلاحیت طالب علموں کو ان کے گھریلو پس منظر سے قطع نظر اعلیٰ معیاری تعلیم کی رسائی حاصل ہو۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر نک براؤن نے کہا کہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں پاکستانی طالب علموں کی نمائندگی سب سے کم ہے اور پاکستانی ماہرین تعلیم کی جانب سے تخلیق کردہ او پی پی کا مقصد اس مسئلے کے حل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ’آکسفورڈ یونیورسٹی میں یہ موضوع دو ستونوں پر کھڑا ہے- ٹیلنٹ تک رسائی اور معیاری تعلیم تک رسائی جو ہر ایک کا بنیادی انسانی حق ہے۔‘
ڈاکٹر فیصل باری نے معیاری تعلیم کی اہمیت پر خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’چیلنج صرف یہی نہیں ہے کہ اعداد و شمار کے لحاظ سے اعلی تعلیم تک رسائی بہتر بنائی جائے بلکہ مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے معیاری تعلیم فراہم کرنا بھی ہے۔‘
اس پینل ڈسکشن میں اس وقت سوال و جواب کی نشست کی راہ ہموار ہوئی جب وہاں شرکا نے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے نظام سے متعلق اپنی تشویش کا اظہار کیا اور اس کی بہتری کے لیے تجاویز پیش کیں۔
تقریب کے اختتام پر سید بابر علی نے کہا، ’مجھے امید ہے کہ یونیورسٹیاں بالخصوص لمز ہمیں مستقبل کے رہنما تیار کرکے دیں گے، جو روادار، لبرل، کھلے ذہن کے ساتھ ساتھ میرٹ کا احترام کرنے والے، اور پاکستان کے بارے میں فکر مند ہوں اور سب کے لیے تعلیمی مواقع فراہم کریں۔‘