معروف صحافی حسن نثار کا بچپن لائل پور (موجودہ فیصل آباد) میں گزرا۔ وہ نصرت فتح علی خان کے پڑوسی اور کلاس فیلو تھے۔ جالندھر کنکشن کی وجہ سے دونوں خاندانوں کی آپس میں گہری قربت رہی۔
حسن نثار کئی انٹرویوز میں بتا چکے ہیں کہ نصرت کے والد انہیں ڈاکٹر یا انجینیئر بنانا چاہتے تھے لیکن وہ ’کلاس کا سب سے نالائق بچہ‘ تھا۔
اپنے وقت کے نامور قوال فتح علی خان کو پرویز (نصرت کا اصل نام) سے شدید محبت تھی۔ وہ اکثر پریشان رہتے کہ یہ گول مٹول معصوم سا بچہ زندگی میں کیا کرے گا۔
حسن نثار کہتے ہیں ایک بار ہم سب بیٹھے تھے کہ میرے والد نے پرویز کے والد سے کہا: ’یار فتح تو کیوں ایویں ہی اتنا پریشان رہتا ہے، تمہارا اپنا گھرانا ہے، اتنا نام ہے، اسے اپنا علم دو۔‘
فتح علی خان نے مایوس کن لہجے میں کہا: ’میاں صاب! میں اسے اپنا علم دے کر کیا کروں گا، اسے تو اللہ نے آواز ہی نہیں دی۔‘
یہ بات اس بچے کی آواز کے بارے میں کہی جا رہی تھی جس نے شہنشاہ قوالی بن کر مشرق و مغرب میں راج کیا اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ نصرت کی نئی دریافت ہونے والی چار قوالیوں کی دنیا بھر میں والہانہ پذیرائی سے اس دعوے کی تصدیق ہوتی ہے کہ لسوڑی شاہ کا یہ ’نالائق بچہ‘ اپنی موت کے 27 برس بعد بھی دنیا کے مقبول ترین فنکاروں میں سے ایک ہے۔
فتح علی خان اپنے زمانے کے بہترین قوالوں میں سے ایک تھے۔ نصرت کے مستقبل کو لے کر بطور والد ان کی پریشانی بجا تھی۔ انتہائی باریک آواز والے نصرت کے گلے میں وہ خصوصیات تھیں ہی نہیں، جو ایک گلوکار بننے کے لیے بنیادی ترین ضرورت ہے۔
ریڈیو پر کلرک بھرتی کروانے کی کوشش
’میڈیا منڈی‘ سے پہچان بنانے والے صحافی اکمل شہزاد گھمن انٹرویوز کے ذریعے اَن دیکھی دنیائیں دریافت کرنے میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں۔ ان سے بات کرتے ہوئے عکسی مفتی انکشاف کرتے ہیں کہ ایک بار نصرت کے والد اور تایا انہیں لے کر ریڈیو پاکستان لاہور آ گئے۔
انہوں نے نصرت کو باہر بٹھایا اور خود ڈائریکٹر مسعود قریشی کے کمرے میں داخل ہوئے۔ عکسی مفتی وہیں موجود تھے۔ ان کے بقول وہ کہنے لگے: ’ہمارا ایک بچہ ہے، سر وہ قوالوں کے گھر غلط پیدا ہو گیا۔ اس کی تو آواز ہی نہیں ہے۔ سر او تے چیخنی دی آواز کڈھ دا ہے۔ اتنی بڑی توند ہے۔ ہمیں تو سمجھ نہیں آتی زندگی میں کرے گا کیا۔ اسے یہاں کلرک رکھ لیں۔ اٹھ جماعتیں پاس ہے۔‘
عکسی مفتی کہتے ہیں کہ اللّہ مہربان تھا اس پہ، مسعود قریشی نے بہت کوشش کی، یہاں تک کہ چلیں کنٹریکٹ پر ہی بھرتی ہو جائے مگر سبب نہ بن سکا۔
مفتی مزید انکشاف کرتے ہیں کہ ’مبارک فتح علی خان (پرویز کے تایا) نے انہیں قوالی نہیں سکھائی، موسیقی نہیں سکھائی۔ وہ پیچھے بیٹھ کر بس تالی بجاتے بجاتے خود ہی سیکھ گیا۔‘
پیچھے بیٹھ کر تالی بجانے والا بچہ آگے بڑھتا ہے!
اکمل شہزاد گھمن کے پاس ایک مزید دلچسپ انکشاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بالی وڈ کے مشہور موسیقار خیام کے بھائی عبدالشکور بیدل وہ پہلے جوہری تھے، جنہوں نے نصرت میں غیر معمولی فنکار دریافت کیا۔
گھمن صاحب کہتے ہیں: ’فتح علی اور مبارک علی کا انتقال ہو چکا تھا۔ ان کا گھرانہ ریڈیو پروگرام کرنے آتا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک بار پروڈیوسر عبدالشکور بیدل صاحب نے قوالی ریکارڈ کرنا تھی۔ انہوں نے کہا یہ بچہ بہت اچھا گاتا ہے اسے پیچھے تالی سے اٹھا کر آگے بٹھائیں۔ خاندان والوں نے کہا کہ یہ ہمارا اندرونی مسئلہ ہے کہ کون کس پوزیشن پر بیٹھے۔ بیدل صاحب اڑ گئے۔ انہوں نے کہا پھر میں قوالی ریکارڈ ہی نہیں کروں گا۔
’وہ سب لوگ سٹیشن ڈائریکٹ شمس الدین بٹ کے پاس چلے گئے، جنہوں نے بیدل صاحب کی تائید کی۔
’نتیجہ یہ نکلا کہ قوال پارٹی کافی دیر لان میں ٹہلتی رہی اور ریکارڈنگ کروائے بغیر چلی گئی۔
’جب اگلی بار آئے تو بیدل صاحب نے وہی شرط رکھی۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے، لیکن پھر ہمارا لڑکا بھی ساتھ بیٹھے گا۔ بیدل صاحب مان گئے۔‘
یہ نصرت کا پہلا بریک تھا، جس کے بعد انہیں کوئی پہلی صف سے اٹھا نہ سکا۔ وہ موت کے بعد بھی اپنی جگہ قائم و دائم ہیں، جس کا ثبوت ان کی حالیہ ریلیز ہونے والے قوالیوں کی پذیرائی سے ملتا ہے۔
’اللّہ لوک‘ بچہ
نصرت کے بچپن کے حالات کا ہم نے اوپر ذکر کیا۔ اس میں حسن نثار کی یہ بات بھی شامل کر لیں کہ پرویز جب کھانے پر بیٹھتا تو اسے پتہ نہیں ہوتا تھا کہ کہیں رکنا بھی ہے۔ وہ کھاتا چلا جاتا۔ میری والدہ کہتیں: ’پرویز ہن بس کر۔‘ وہ کہتا: ’اچھا جی‘ اور ہاتھ روک لیتا۔ اس سے زیادہ معصومیت کیا ہو سکتی ہے۔
غیر معمولی وزن، سردیوں میں آم کھانے کی ضد پکڑ کر بھوک ہڑتال کرنے والا بچہ، اس بات سے ناواقف کہ کھانا کھاتے ہوئے کہاں بس کرنی ہے، آواز انتہائی باریک اور کلاس کا ایسا بچہ جسے آپ کچھ سمجھا نہیں سکتے، یہ تھا پرویز۔ ہم نے ایسے بچوں کو اپنے اردگرد دیکھا ہے، لوگ انہیں ’اللّہ لوک‘ کہتے ہیں یعنی نیم پاگل لیکن بے ضرر قسم کے انسان۔
اگر نصرت کے خاندان میں قوالی نہ ہوتی تو سوچیے ان کی زندگی کس ڈھنگ سے گزرتی۔ ان کے والد کی خواہش کیا تھی کہ پرویز ڈاکٹر یا انجینیئر بنے، مگر مجبوراً انہیں ریڈیو پر چھوٹی موٹی کلرکی دیکھنا پڑی۔
اسی طرح قوال پارٹی میں انہیں تالی بجانے پر بٹھایا گیا کہ یہ اور کیا کر سکتا ہے۔
غیر معمولی کیا، پرویز میں تو کچھ معمولی بھی نہ تھا، لیکن آپ دنیا کے بہترین دماغ اٹھا کر انہیں اچھی سے اچھی ٹریننگ دیں، پھر قوالی کروا لیں۔ وہ نصرت کے پاؤں کی دھول بھی نہ بن سکے گا۔ یہ تخلیقیت ہے۔ یہ فن کاری کا اعلیٰ ترین درجہ ہے۔ یہ انسانی صلاحیتوں کی غیر معمولی بلندی ہے جس کی سرحدیں ہمیشہ پاگل پن سے جا ملتی ہیں۔ جب سب سانچے ناکام ہو جائیں تو غیر معمولی فن جنم لیتا ہے۔
شکر کہ نصرت کسی سانچے میں فٹ نہیں بیٹھے۔ ورنہ وہ لسوڑی شاہ سے نکل کر زیادہ سے زیادہ لاہور تک آ جاتے۔ دو چار دورے انڈیا کے کر لیتے اور درباروں پر گاتے گاتے ایک معمولی قوال کے طور پر فوت ہو جاتے۔
نصرت سے پہلے قوالی تیسرے درجے کا فن سمجھی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ دوسرے درجے کا فن سمجھے جانی والی فلم موسیقی کے شعبے سے وابستہ فنکار کسی گلوکار کو انتہائی برا بھلا کہنا چاہتے تو اسے ’بھنڈی بازار کا قوال‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔
نصرت اپنا رشتہ دہلی کے ’قوال بچہ‘ سے جوڑتے تھے مگر انہیں قوالی کے روایتی گھرانوں نے ہمیشہ ناپسند کیا۔ ان کے خیال میں نصرت کی جدت پسندی قوالی کو شعبدہ بازی میں تبدیل کرنے کا باعث بنی، لیکن مکھی پر مکھی مارنے والا فنکار جتنا بھی غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل ہو نئی دنیا آباد نہیں کر سکتا۔
نصرت نے قوالی کی ایک پوری سلطنت کھڑی کی اور شہنشاہ بن کر راج کیا۔ مشرق اور مغرب کے فیوژن میوزک میں جتنی پزیرائی نصرت کو ملی شاید ہی کسی دوسرے گلوکار کو ملی ہو۔
ان کی حالیہ ریلیز ہونے والی قوالیوں کے بعد لوگوں نے یوٹیوب پر ’چین آف لائٹ‘ کے نام سے چینل بنائے، وہاں چار قوالیاں اپ لوڈ کیں اور محض چند دنوں میں لاکھوں ویوز اور ہزاروں سبسکرپشن حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہے۔ گمشدہ البم ملنے کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا، ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان میں کیا ہے۔
چار قوالیاں، نصرت کا تبرک
’چین آف لائٹ‘ (اک سلسلہ نور ہے ہر سانس کا رشتہ، قوالی میں موجود اس مصرعے سے یہ نام اخذ کیا گیا) کے نام سے ریلیز ہونے والا یہ البم اپریل 1990 میں پیٹر گیبریل کے رئیل ورلڈ سٹوڈیوز میں ریکارڈ کیا گیا تھا، جس میں چار قوالیاں ہیں اور دورانیہ 41 منٹ بنتا ہے۔
’یا غوث یا میراں‘ عبدالقادر شاہ جیلانی کو خراج عقیدت ہے جسے پیر نصیر الدین شاہ نے لکھا۔ یہ قوالی بالکل نئی تھی جس کی کسی طرح کی ریکارڈنگ کسی بھی کمپنی نے کبھی ریلیز نہیں کی تھی۔
’اج سک متراں دی ودھیری اے‘ پنجابی زبان کی معروف نعت ہے جسے پیر مہر علی شاہ نے لکھا۔ یہ نعت حسن بیاں کا خوبصورت نمونہ ہے، جس کے ایک ایک لفظ سے عقیدت چھلکتی ہے۔ آپ پنجابی نہ بھی جانتے ہوں تو اس نعت کا یہ مشہور شعر ضرور سن رکھا ہو گا، ’کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا، گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں۔‘
’یا اللہ یا رحمان‘ ایک حمد ہے جبکہ ’خبرم رسید امشب‘ امیر خسرو کی مشہور فارسی غزل ہے۔ اس طرح اردو، پنجابی اور فارسی زبانوں کی چار کمپوزیشنز ہیں جنہیں استاد نے قوالی کے انداز میں گایا ہے۔
اگر نصرت فتح علی خان کے پہلے سے موجود خزانے سے اِن البمز کا موازنہ کیا جائے تو یہ ہرگز غیر معمولی نہیں۔ اس طرح کے بیسویں البمز استاد کی آواز میں یوٹیوب پر پہلے سے موجود ہیں۔ انہیں سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ نوے کی دہائی میں فیوژن سے پہلے نصرت کی قوالی کا کیا رنگ تھا۔
یہ قوالیاں محض نصرت کا تبرک ہیں۔ مگر انہیں سنتے ہوئے نصرت کی عظمت کا ہیولہ اور ان کے چاہنے والوں کی عقیدت مندی اسے دیو مالائی تجربے میں تبدیل کر دیتی ہے۔
لسوڑی شاہ کا پرویز آج مشرق و مغرب میں ایک دیو مالائی کردار ہے۔ اس سے وابستہ ہر چیز دیو مالا ہے، حتی کہ یہ چار روایتی قسم کی قوالیاں بھی۔