پولیس قوانین میں ترامیم کا مقصد کیا پولیس کو بے اختیار بنانا ہے؟

پی ٹی آئی حکومت نے 2017 میں پولیس اصلاحات کے نام سے خیبر پختونخوا پولیس ایکٹ صوبائی اسمبلی سے پاس کرایا تھا جس میں زیادہ تر اختیارات انسپکٹر جنرل اف پولیس (آئی جی) کو منتقل کیے گئے تھے۔

پولیس کے اہلکار پشاور میں 7 اگست 2022 کو محرم کے جلوسوں کی سکیورٹی پر موجود ہیں (اے ایف پی)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی خیبر پختونخوا حکومت نے ماضی میں اپنی لائی ہوئی پولیس ریفارمز کی ترامیم واپس لے کر پولیس ایکٹ میں نئی ترمیم کر دی ہے جس میں کچھ اختیارات وزیر اعلیٰ کو منتقل کیے گئے ہیں۔

پی ٹی آئی حکومت نے 2017 میں پولیس اصلاحات کے نام سے خیبر پختونخوا پولیس ایکٹ صوبائی اسمبلی سے پاس کرایا تھا جس میں زیادہ تر اختیارات صوبائی پولیس سربراہ یا انسپکٹر جنرل اف پولیس (آئی جی) کو منتقل کیے گئے تھے۔

تاہم موجودہ حکومت نے دوبارہ ریفارمز کے نام پر اسی قوانین میں ترامیم کر کے پیر کو بل صوبائی اسمبلی سے پاس کرایا جس پر بعض مبصرین کا خیال ہے کہ یہ سیاسی فائدے کے لیے ترامیم ہیں۔

ترامیم کی منظوری کے بعد صوبائی حکومت کی جانب سے جاری بیان میں یہ کہا گیا کہ ان اصلاحات کا مقصد صوبائی حکومت اور کابینہ کا پولیس کے معاملات پر کنٹرول مضبوط کرنا ہے اور شکایات کے طریقہ کار کو بہتر بنانا ہے۔

پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد موجودہ آئی جی کے تبادلے کے لیے کوششیں کی تھیں لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔

پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کے مطابق موجودہ آئی جی کو تبدیل اس لیے کیا جا رہا تھا کیونکہ نو مئی کے واقعے کے بعد صوبائی حکومت نے پی ٹی آئی رہنماؤں کی پکر دھکڑ شروع کی تھی اور ان کے گھروں پر بھی چھاپے مارے گئے تھے۔

ایکٹ میں کیا ترامیم کی گئی ہیں؟

صوبائی کابینہ نے خیبر پختونخوا پولیس ایکٹ 2017 کی تقریباً 21 شقوں میں ترمیم کی ہے جبکہ بعض شقیں اور ایکٹ اے ختم کیے گئے ہیں اور کچھ مزید ذیلی شقیں ایکٹ میں شامل کی ہیں۔

سب سے اہم شق جو زیر بحث ہے وہ ایکٹ کی شق نمبر چھ میں ترمیم ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اب ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) سمیت پولیس کے گریڈ 18 اور اس سے اوپر کے افسران کی تعیناتی یا تبادلے کے لیے وزیراعلیٰ کی منظوری لازمی ہو گی۔

اس سے پہلے اسی پولیس ایکٹ کے تحت تعیناتی اور تبادلوں کا اختیار آئی جی کے پاس تھا لیکن اب ان سے یہ اختیار لے لیا گیا ہے۔

دوسری اہم ترمیم اسی ایکٹ کی شق نمبر نو میں کی گئی ہے جس کے تحت پولیس کے انتظامی، معاشی اور آپریشنل معاملات اب وزیراعلیٰ یا حکومتی پالیسی کے تحت ہوں گے۔

اس سے پہلے یہ اختیار آئی جی کے پاس تھا اور وہ قانون کے مطابق تمام انتظامی اور آپریشنل معاملات کو چلاتے تھے۔

اسی ترامیم کے مطابق پولیس کے تمام قوانین اب حکومتی منظوری کے تابع ہوں گے یعنی پولیس کی جانب سے کسی قسم کے قوانین کی اب حکومت پہلے منظوری دے گی۔

اس سے پہلے آئی جی کو یہ اختیار حاصل تھا اور وہ رولز آف بزنس بنا سکتے تھے۔

اسی  طرح پولیس ایکٹ کی ترامیم کے مطابق پہلے صوبائی عوامی تحفظ کمیشن کے اراکین 13 تھے جس کو اب 15 کر دیا گیا اور ان اراکین میں اب صوبائی و قومی اسمبلی کے اراکین بھی شامل ہوں گے۔

ترامیم کے مطابق ہر ایک ضلعے میں 10 ارکان پر مشتمل ڈسٹرکٹ عوامی تحفظ کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے گا جس میں صوبائی و قومی اسمبلی کے اراکین، سول سوسائٹی اور مقامی حکومت کے نمائندے شامل ہوں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی طرح عوامی یا پولیس کے خلاف شکایات کے طریقہ کار کو مزید موثر بنانے کے لیے صوبائی حکومت کے مطابق ایکٹ میں اب لوکل انکوائری، سپروائزڈ انکوائری، ڈائریکٹ ائکوائری، اور آزاد انکوائری جیسے طریقہ کار شامل کیے گئے ہیں۔

تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟

اس ایکٹ میں سب سے زیادہ جس پر بحث کی گئی ہے، وہ وزیر اعلیٰ کو تعیناتیوں اور تبادلوں کا اختیار دینا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے سابق آئی جی اور سابق سیکریٹری محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا ڈاکٹر سید اختر علی شاہ سے اس حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’میرے نزدیک یہ فرق نہیں ضروری نہیں ہے کہ کاغذ پر کیا لکھا ہے بلکہ یہ اہم ہے کہ گراؤنڈ پر کیا ہو رہا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ 2001 تک پولیس ایکٹ 1860 نافذ تھا اور اس کے بعد 2002 میں جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف نے پولیس آرڈیننس پاس کیا اور اس کے بعد 2017 کا پولیس ایکٹ آ گیا۔

تاہم اختر علی شاہ کے مطابق ان تمام قوانین کا تقابلی جائزہ بہتر انداز سے ایسے کیا جا سکتا ہے کہ عوام کو کتنا ریلیف ملا ہے اور کیا عوام کو انصاف مل رہا ہے یا نہیں۔

اختر ولی شاہ نے بتایا، ’اگر ایک عام شہری کا پولیس سٹیشن میں مقدمہ درج ہوتا ہے۔ اگر ایک عام شہری کی پولیس سٹیشن میں گمشدگی رپورٹ لی جاتی ہے یہ اصلاحات بہتر ہیں لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو کاغذ میں اصلاحات کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔‘

اختر علی شاہ کے مطابق پی ٹی آئی کے خیبر پختونخوا میں پہلے دور حکومت میں جب پرویز خٹک وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے ’پولیس کو سپیس دی تھی اور کچھ بہتری نظر آرہی تھی۔‘

انہوں نے بتایا، ‘اس وقت 2017 کا پولیس ایکٹ پاس بھی نہیں ہوا تھا لیکن چونکہ حکومت نے پولیس کو گنجائش دی تھی تو بہتری نظر آرہی تھی اور پھر اسی پولیس ایکٹ کے باوجود 2022 کے بعد ہم نے دیکھا کہ پولیس نے گھر اور چار دیواری کا تقدس بھی پامال کیا۔‘

اختر علی شاہ کے مطابق 2017 کے ایکٹ میں ترمیم کے باوجود ماضی میں تبادلے اور تعیناتی سیاسی بنیاد پر ہوتی تھی تو ایکٹ پرانا ہو یا ترمیم شدہ، گراؤنڈ پر بہتری لانے کی ضرورت ہے۔

لحاظ علی پشاور میں مقیم صحافی و تجزیہ کار ہیں اور گذشتہ کئی سالوں سے صوبائی اسمبلی کی رپورٹنگ کرتے آ رہے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بنیادی طور پر عمران خان یورپ اور امریکہ کے پولیس ماڈل یہاں نافذ کرنا چاہتے تھے اور پولیس ایکٹ 2017 کے مطابق ان کو تمام انتظامی، مالی اور آپریشنل معاملات کا اختیار دیا گیا تھا۔

تاہم لحاظ علی کے مطابق کچھ جگہوں پر اس خود مختاری کا ’غلط فائدہ‘ اٹھایا گیا اور نو مئی کے بعد علی امین گنڈاپور سمیت مختلف پی ٹی آئی کے رہنماؤں پر مقدمے درج کیے گئے۔

انہوں نے بتایا، ‘پولیس نے اپنے اختیارات کسی اور کے ماتحت کیے اور اسی وجہ سے بعض مواقع پر اراکین اسمبلی کے احکامات بھی نہیں مانے گئے اور اسی وجہ سے پی ٹی آئی نے یہ ترامیم کیں۔‘

اسی طرح پولیس پبلک سیفٹی کمیشن کی بات کی جائے تو اس میں اراکین اسمبلی کو شامل کیا گیا اور پولیس کا احتساب کا طریقہ کار تبدیل کیا گیا۔

لحاظ علی نے بتایا، ‘میری ذاتی رائے یہ ہے کہ پولیس باختیار ہونی چاہیے لیکن اس کے ساتھ احتساب کا بھی ایک طریقہ کار ہونا چاہیے اور میرے خیال میں پی ٹی آئی نے وہ طریقہ کار بنا لیا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست