صبح ہر گھر کی تقریباً ایک ہی روٹین ہوتی ہے، مائیں نماز سے فارغ ہو کر بچوں کو سکول کے لیے جگا رہی ہوتی ہیں، شوہرحضرات بستر پہ ہی بیڈ ٹی کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں اور جن گھروں میں بزرگ ہوں وہ اپنے چھوٹوں کے سلام کے منتظر۔
اس جمود بھرے روٹین کو توڑتا ہے ٹی وی پہ آنے والا مارننگ شو۔ کہیں ندا یاسر کا ’گڈ مارننگ پاکستان،‘ پی ٹی وی ہوم سے جگن کاظم کا ’مارننگ ایٹ ہوم‘ اور کہیں ہما امیر شاہ کا ’جیو پاکستان۔‘ یہ تو تھے مارننگ شوز کے وہ نام جو ہمارے سب سے مشہور چینلوں پہ دیکھنے کو ملتے ہیں جب کہ کئی درجن دیگر چینلز بھی روز صبح اپنی سکرینوں پہ بیسٹ اینکروں کے ساتھ ایسے ہی پروگراموں کا اہتمام کرتے ہیں۔
مارننگ شوز کا سلسلہ 1980 کی دہائی میں اس وقت کے واحد چینل پی ٹی وی نے ’صبح بخیر‘ کے نام سے ایک پروگرام کے ذریعے شروع کیا تھا، جس کے میزبان و مصنف جناب مستنصر حسین تارڑ تھے جن کے ساتھ ایک معاون ہوسٹ بھی ہوا کرتی تھیں۔ اس پروگرام کو اسلام آباد سے نشر کیا جاتا اور ایک سادہ اور پر وقار سیٹ لگا ہوتا۔
جناب تارڑ ایک عمدہ اور دلچسپ انداز میں دھیمے لہجے میں دن کا آغاز کس طرح مثبت بنایا جا سکتا ہے اس پر گفتگو سے پروگرام شروع کیا کرتے، پھر دن کے دیگر لوازمات پہ بات ہوتی، جو کرنٹ افئیرز سے بھی جڑت رکھتے، صحت سے بھی ، کاروبار سے اور خواتین کی دلچسپی کے لیے کچھ نہ کچھ کچن کے معاملات پہ بات ہوتی۔ اخبار کے اداریے کے صفحے پہ چھپنے والا ایک کارٹون بھی دکھایا جاتا، جو بہت کچھ کہہ جاتا۔
اب ان گنت مارننگ شوز ہیں، فارمیٹ کم و بیش وہی ہے، بس وقت کے ساتھ ساتھ یہ شوز بہت سے مہمانوں سے مزین ہوتے ہیں، کچھ مہمان دیکھنے کے لیے اور کچھ گفتگو کے لیے سٹوڈیو کی رونق بنتے ہیں۔
ایک ریسرچ کے مطابق پاکستان میں ٹی وی دیکھنے والوں کی تعداد 15 کروڑ ہے۔ اور اس میں سے یہ اندازہ لگانا کہ خواتین ناظر کتنی ہیں ذرا مشکل تھا، لیکن ’گیلپ اینڈ گیلانی‘ کے سروے کے مطابق صرف 48 فیصد کا دعویٰ ہے کہ وہ ٹی وی دیکھتے ہیں۔ جن میں سے 15 فیصد شہری آبادی دیہی ویوورز کے مقابلے میں ٹی وی زیادہ دیکھتی ہے۔
ان میں سے کتنی خواتین ہوں گی یہ تو پتہ نہیں لیکن خواتین مارننگ شوز میں خواتین سیلیبریٹیزکو دیکھنا اور سننا چاہتی ہیں، کیونکہ ان کی کامیابی کی کہانیاں ان کا حوصلہ بڑھاتی ہیں۔اس کے علاوہ خواتین سے جڑے سماجی مسائل و حقوق پہ بات چیت اور صحت کی معلومات بھی خاص توجہ کا مرکز ہوتی ہے۔
صبح کا آغاز مثبت نوٹ پہ ہونا چاہیے، ایسا کہنا ہے پی ٹی ہوم کی مارننگ شو ہوسٹ، اداکارہ اور ماڈل ’جگن کاظم‘ کا، جنہوں نے انڈیپینڈنٹ اردو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا، ’ایک ورکنگ خاتون ہونے کے ناطے میں گھر سے نکلتے ہوئے ایسا کچھ دیکھنا چاہوں گی جس سے میرے علم میں اضافہ ہو، میں کچھ ایسا دیکھوں جس سے میرے دن کی شروعات مثبت انداز میں ہو، شور شرابے کو نہ میں دیکھنا چاہوں گی اور نہ ہی بحیثیت ہوسٹ میں اپنے شو میں دکھانا چاہوں گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مارننگ شوز کے حوالے سے شاید چینلز ایک دوسرے سے مقابلے پہ بھی رہتے ہیں اور اکثر غیر ضروری مواد بھی ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے۔
انٹرپرینورقرۃالعین اسد کا کہنا تھا کہ ’میں ایک زمانے میں یہ پروگرام ضرور دیکھا کرتی تھی، لیکن پھر جیسے مارننگ شوز اپنا محور اور معیار بھولنے لگے۔ صبح صبح شور شرابا ور سیلیبرٹیز کی شادیوں میں کسے دلچسپی ہو گی۔‘
لکھاری صنوبر ناظر سے بھی جب انڈیپینڈنٹ اردو نے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ پہلے مارننگ شوز دیکھا کرتی تھیں۔ اب نہیں دیکھتی۔
ہمارے دریافت کرنے پہ ان کا ماننا تھا کہ ’ایک وقت تھا کہ جب شائستہ لودھی مارننگ شو کیا کرتی تھیں۔ اس کا کنٹینٹ بھی معیاری اور معلوماتی ہوا کرتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ مجھے فرصت بھی کم ملنے لگی اور ان پروگراموں کے کنٹیںٹ بھی غیر دلچسپ ہو گیا ہے۔‘
کئی ٹی وی ویوورز مرد و خواتین کا کہنا تھا کہ ’ہم ضرور چاہیں گے کہ ان شوز سے اپنے دن کو بہتر بنا سکیں لیکن کنٹینٹ کی مماثلت ہماری عدم دلچسپی کا باعث بن رہی ہے۔ صرف چاول دم کرنا اور اچھی بیس منہ پہ کیسے لگائی جائے ایک گھریلو خاتون کی دلچسپی اس سے ٓاگے جا چکی ہے۔‘
تجربہ کار ہوسٹ اور اینکر جگن کاظم اس بات سے متفق ہیں کہ اب وقت بدل چکا ہے، ’لوگ ’ورک فرام ہوم‘ بھی کر رہے ہیں۔ وہ دن بھر میں کسی وقت ان مارننگ شوز کو ضرور دیکھتے ہیں، جس سے انہیں مارکیٹ ٹرینڈز اور سکسیس سٹوریز کا پتہ چلتا ہے جو کسی کو بھی مثبت سمت کا تعین کرنے میں مددگار ہو سکتا ہے۔‘
یاد رہے کہ صحت سے متعلق ماہرین اور طب نبوی کے ماہرین بھی لوگوں کی اچھی رہنمائی کرتے ہیں۔
بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو صحت کے ماہرین سے جا کر مل نہیں پاتے لیکن ان پروگراموں میں مدعو کیے گئے ایکسپرٹس بہت سے اہم مسائل اور علاج کی نشاندہی کر دیتے ہیں۔
ان شوز کو دیکھنے والے ناظرین کی ایک بڑی تعداد گھر میں بیٹھے ریٹائرڈ اور بزرگ افراد کی بھی ہے۔ جہاں ان کے گھر کے دیگر افراد تعلیم یا نوکریوں پہ صبح نکل جاتے ہیں اور وہ گھر پہ اپنی بوریت اور اداسی کو دور کرنے کے لیے ناشتہ کر کے اپنی دوائی کی ’ڈوز‘ کی طرح باقاعدگی سے مارننگ شوی دیکھتے ہیں۔
جگن کاظم کا کہنا تھا کہ ’ہر شو اس کے ہوسٹ کی ڈومین ہوتا ہے، چاہے کتنے ہی رنگ آپ کو پروگرام کے کینوس پر پینٹ کرنے کو دیے جائیں کئی سارے معاون بھی آپ کے ساتھ ہوتے ہیں لیکن شو ہوسٹ کے ہی ہاتھ میں ہوتا ہے۔ میرامختلف چینلز پر ان شوز کو کرنے کا 16 سال کا تجربہ ہے، میری کوشش ہوتی ہے کہ اپنے پروگرام کے کینوس میں وہ رنگ بھروں جو لوگ ڈائجسٹ کر سکیں اور ایک مثبت پیغام پہنچے۔‘