1970 کی خفیہ سیٹلائٹ تصویروں سے جنگ قادسیہ کا مقام دریافت

اس قدیم راستے کی نقشہ سازی کرتے ہوئے ٹیم نے دیکھا کہ نجف میں کوفہ سے تقریباً 30 کلومیٹر جنوب میں ایک صحرائی علاقہ ہے جہاں قابل کاشت جگہ پر کھیتوں میں ایسی خصوصیات تھیں جو تاریخ میں بیان کردہ قادسیہ کے مقام سے ملتی جلتی ہیں۔

ڈاکٹر جعفر الجوثیری 2024 میں سیٹلائٹ تصاویر کی مدد سے القادسیہ کی جنگ کے مقام کی تلاش کر رہے ہیں (اے پی)

1970 کی دہائی کی خفیہ سیٹلائٹ تصویروں نے آثار قدیمہ کے ماہرین کو وہ جگہ دریافت کرنے میں مدد کی ہے جو ان کے خیال میں ساتویں صدی میں لڑی جانے والی جنگِ قادسیہ کا مقام ہے جو پورے خطے میں اسلام کے پھیلاؤ میں فیصلہ کن ثابت ہوئی۔

جنگ قادسیہ دریائے دجلہ اور فرات کے درمیان میسوپوٹیمیا، جو موجودہ عراق میں واقع ہے، میں لڑی گئی اور 636 عیسوی میں اسلام کے جزیرہ نما عرب سے نکل کر دنیا بھر میں پھیلاؤ کے وقت عرب مسلمانوں اور فارس کے ساسانی خاندان کی فوج کے درمیان لڑی گئی تھی۔

اس جنگ میں مسلمانوں کی فوج غالب آ گئی جس نے فارس (موجودہ ایران) میں اپنی پیش قدمی جاری رکھی۔

برطانیہ کی ڈرہم یونیورسٹی اور عراق کی القادسیہ یونیورسٹی کے ماہرین آثار قدیمہ کی ایک مشترکہ ٹیم نے عراق کے شہر کوفہ سے سعودی عرب کے شہر مکہ تک ایک ہزار سال قبل زائرین کے لیے تعمیر کیے جانے والی قدیم گزرگاہ دارب زبیدہ کا نقشہ بنانے کے لیے ایک ریموٹ سینسنگ سروے کیا تھا جس کے نتائج منگل کو ’اینٹکوٹی‘ جریدے میں شائع ہوئے۔

اس قدیم راستے کی نقشہ سازی کرتے ہوئے ٹیم نے دیکھا کہ عراق کے جنوبی صوبہ نجف میں کوفہ سے تقریباً 30 کلومیٹر جنوب میں ایک صحرائی علاقے میں زرعی زمین کے بکھرے ہوئے کھیتوں میں ایسی خصوصیات تھیں جو تاریخی دستاویزات میں بیان کردہ جنگِ قادسیہ کے مقام سے ملتی جلتی تھیں۔

ڈرہم یونیورسٹی میں آثار قدیمہ کے ریموٹ سینسنگ کے ماہر ولیم ڈیڈمین نے کہا کہ سرد جنگ کے زمانے کی سیٹلائٹ تصاویر مشرق وسطیٰ میں کام کرنے والے ماہرین آثار قدیمہ کی طرف سے عام طور پر استعمال ہونے والے ٹولز ہیں کیونکہ پرانی تصاویر اکثر ایسی خصوصیات کو ظاہر کرتی ہیں جو تباہ یا تبدیل ہو چکی ہیں اور موجودہ دور کی سیٹلائٹ تصاویر میں نظر نہیں آتیں۔

ولیم ڈیڈمین نے کہا کہ مشرق وسطیٰ نے گذشتہ 50 سالوں میں زرعی شعبے اور شہری توسیع دونوں میں بہت ترقی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قادسیہ کے مقام پر کچھ امتیازی خصوصیات جیسے ایک مخصوص خندق، 1970 کی دہائی کی تصاویر میں زیادہ نمایاں اور واضح تھیں۔

زمین پر ایک نئے سروے نے ان نتائج کی تصدیق کی اور ٹیم کو اس بات پر قائل کیا کہ انہوں نے (جنگ قادسیہ کے) مقام کی صحیح شناخت کی ہے۔

القادسیہ یونیورسٹی کے آثار قدیمہ کے پروفیسر جعفر جوتھری نے کہا کہ اس (میدان جنگ) کی اہم خصوصیات میں ایک گہری خندق، دو قلعے اور ایک قدیم دریا شامل تھے جسے مبینہ طور پر ہاتھیوں پر سوار فارسی دستوں نے بنایا تھا۔ سروے ٹیم نے یہاں سے دریافت مٹی کے برتنوں کے ٹکڑوں کو بھی جنگ کے دورکے مطابق پایا۔

جعفر نے کہا کہ ان کی نسل کے عراقی شہری، جو صدام حسین کے دور حکومت میں پلے بڑھے تھے، دونوں جانب (عربوں اور فارس) کے جنرلوں کے نام سمیت اس جنگ سے متعلق تمام جزئیات کی تفصیل سے واقف تھے۔

اس وقت اس جنگ کے سیاسی مفہوم بھی تھے جب عراق 1980 کی دہائی کے بیشتر حصے میں ایران کے ساتھ ایک تباہ کن جنگ لڑ رہا تھا۔ صدام حسین نے ایران کے خلاف تنازع میں جنگ قادسیہ کا کئی بار ذکر کیا جو عراق کی فتح کی علامت ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس دور میں بڑے ہونے والے زیادہ تر بچوں کی طرح جعفر نے کہا کہ انہوں نے جنگ قادسیہ کے بارے میں ایک مشہور فلم متعدد بار دیکھی کیونکہ یہ ٹیلی ویژن پر باقاعدگی سے نشر کی جاتی تھی۔

صدام حسین کے بعد کے دور میں جنگ قادسیہ ایک سیاسی کسوٹی بن گئی کیوں کہ جنگ کے بارے میں عراقیوں کے خیالات ایران کے تئیں ان کے جذبات کی بنیاد پر مختلف ہوتے، جنہوں نے 2003 میں عراق پر امریکی قیادت میں حملے کے بعد اس ملک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا اور بالآخر صدام حسین کا تختہ الٹ دیا۔

جعفر نے کہا: ’اس جنگ کا کچھ سیاسی اور مذہبی سیاق و سباق ہے کیونکہ اب بھی یقیناً، عراق میں ہمارے ہاں مذہبی اختلافات، نسلی اختلافات، سیاسی اختلافات ہیں اور ہم ہر چیز کو اپنے اختلافات کی بنیاد پر پڑھتے یا دیکھتے ہیں لیکن ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ یہ ایک بہت اہم جنگ اور فیصلہ کن جنگ تھی اور ہم سب اس کے بارے میں جانتے ہیں۔‘

جعفر نے کہا کہ ان کی ٹیم آئندہ سال اس جگہ پر کھدائی شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

یہ دریافت 2015 میں خطے میں خطرے سے دوچار آثار قدیمہ کے مقامات کو دستاویز کرنے کے لیے شروع کیے گئے ایک وسیع تر منصوبے کا حصہ تھی۔

یہ دریافت عراق، جسے اکثر ’تہذیبوں کا گہوارہ‘ کہا جاتا ہے، میں آثار قدیمہ کی بحالی کے وقت سامنے آئی لیکن یہاں آثار قدیمہ کی تلاش اور کھدائی کئی دہائیوں کے تنازعات کی وجہ سے رکی رہی اور دسیوں ہزار قدیم نوادرات کی لوٹ مار کا باعث بنی۔

حالیہ برسوں میں کھدائی کا کام دوبارہ شروع ہو چکا ہے اور ہزاروں چوری شدہ نوادرات واپس لائے گئے ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا