پاکستان سولر سسٹم درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک کیسے بنا؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سولر توانائی کا خاموش مگر تیز رفتار فروغ یہ ظاہر کرتا ہے کہ صاف توانائی اب صرف ماحولیاتی انتخاب نہیں رہی، بلکہ ایک طاقتور اقتصادی حل بن چکی ہے۔

لاہور میں 12 اکتوبر، 2020 کو یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں افتتاح کے موقع پر طلبہ سولر پینلز سے بنی ایک عمارت کو دیکھ رہے ہیں جس سے تقریباً 148 کلو واٹ بجلی پیدا ہوتی ہے (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

کوئی وسیع قانون نہیں، کوئی عالمی سرمایہ کاری مہم نہیں، کوئی وزیراعظم سبز انقلاب کا اعلان نہیں کر رہا تھا۔ پھر بھی، 2024 کے اختتام تک، پاکستان نے دنیا کے تقریباً ہر دوسرے ملک سے زیادہ سولر پینلز درآمد کیے۔

معاشی چیلنجز اور توانائی کی کمی کا سامنا کرنے والے اس جنوبی ایشیائی ملک میں دہائی کی سب سے غیر متوقع صاف توانائی کی کامیابی کی کہانیوں میں سے ایک دیکھنے کو مل رہی ہے۔

برطانیہ کے توانائی تھنک ٹینک ایمبر کی ’گلوبل الیکٹرسٹی ریویو 2025‘ کے مطابق، پاکستان دنیا کی سرکردہ سولر مارکیٹوں میں شامل ہو گیا ہے، صرف گذشتہ برس 17 گیگاواٹ سولر پینلز درآمد کیے۔

یہ اضافہ پچھلے سال کی درآمدات سے دوگنا ہے، اور اس نے پاکستان کو سولر پینلز کے عالمی سطح پر سرکردہ خریداروں میں سے ایک بنا دیا ہے۔

پاکستان کی درآمدات کا پیمانہ خاص طور پر نمایاں ہے کیونکہ یہ کسی قومی پروگرام یا یوٹیلیٹی پیمانے پر نہیں چلایا جا رہا۔

اس کے بجائے، زیادہ تر مانگ گھروں، چھوٹے کاروباروں اور تجارتی صارفین کی طرف سے چھتوں پر لگائے گئے سولر تنصیبات کی ہے جو بار بار بجلی کی کٹوتی اور توانائی کی بڑھتی لاگت کے سامنے سستی اور زیادہ قابل اعتماد بجلی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایمبر کی رپورٹ کے مطابق، ملک میں گھروں اور کاروباروں میں چھت پر سولر تنصیبات میں ’کم لاگت والی بجلی تک رسائی کے ذرائع‘ میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان کے ماہرین اس تجزیے کی تصدیق کرتے ہیں۔

محمد مصطفیٰ امجد، ری نیوایبلز فرسٹ کے پروگرام ڈائریکٹر نے دی انڈیپنڈنٹ کو بتایا کہ سولر بوم کو بہتر طور پر لوگوں اور کاروباروں کے ’بقا کے ردعمل‘ کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے جو ’ناکارہ منصوبہ بندی اور غیر یقینی سپلائی کی وجہ سے گرڈ سے باہر ہوتے جا رہے تھے۔‘

’یہ ایک سٹرکچرل تبدیلی کی نشان دہی کرتا ہے،‘ وہ کہتے ہیں، ’جس میں پاکستان میں توانائی کو کس طرح دیکھا جاتا ہے۔‘

امجد کے مطابق صرف مالی سال 2024 میں پاکستان کی سولر پینل درآمدات ملک کی زیادہ سے زیادہ بجلی کی مانگ کا تقریباً نصف حصہ ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا: ’چھت پر سولر تیزی سے توانائی کا پسندیدہ ترین فراہم کنندہ بن رہا ہے۔‘

’اور ایک تیزی سے تبدیل ہوتی توانائی کی معیشت میں متعلقہ رہنے کے لیے گرڈ کے کردار کو بڑے پیمانے پر موافق بنانا ہو گا۔‘

کراچی میں توانائی کے ماہر عبید اللہ کا کہنا ہے کہ توانائی کی تبدیلی کو لوگ اپنے ہاتھوں میں معاملات لے کر آگے بڑھا رہے ہیں۔

’اگر آپ کسی بھی پاکستانی شہر کی سیٹلائٹ تصاویر دیکھیں،‘ انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’تمام چھتیں نیلی دکھائی دیتی ہیں، سولر پینلوں سے ڈھکی ہوئی۔‘

ایک ایسے خطے میں جو اکثر گرڈ کی عدم استحکام سے متاثر ہوتا ہے، سولر پینلز غیر معتبر پبلک سپلائی کے لیے ایک عملی متبادل کے طور پر سامنے آئے ہیں۔

2024 میں درآمدات میں تیزی سے اضافہ بجلی کی بدترین بندشوں، غیر مستحکم نرخوں اور ڈیزل جنریٹرز اور درآمدی ایندھن سے جڑے مہنگے اخراجات کے بعد دیکھنے میں آیا ہے۔ قومی سطح پر اصلاحات کا انتظار کرنے کے بجائے، بہت سے پاکستانیوں نے براہ راست سولر ٹیکنالوجی اپنانا شروع کر دی — اکثر بغیر کسی بڑی سبسڈی یا مرکزی منصوبہ بندی پر انحصار کیے، اپنے طور پر سولر پینلز اور انورٹرز نصب کیے۔

یہ پاکستان کی سولر ترقی کو عالمی منظر میں کچھ غیر معمولی بناتا ہے۔

کئی ممالک میں، سولر ٹیکنالوجی کو اپنانا ماحولیاتی پالیسی اور بین الاقوامی مالی معاونت سے گہرے طور پر جڑا ہوا ہے۔ پاکستان میں سولر ٹیکنالوجی کا فروغ اس کے برعکس مارکیٹ کی منطق اور مقامی ضرورت کا نتیجہ محسوس ہوتا ہے، نہ کہ ماحولیاتی سفارت کاری کا۔

ایمبر رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ترقی زیادہ تر ’رسمی توانائی منصوبہ بندی کے فریم ورک سے ہٹ کر‘ ہو رہی ہے۔

صنعت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے سولر سفر میں حکومت کی براہ راست مداخلت بہت کم ہے۔ درحقیقت، انفراسٹرکچر رفتار کو برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔

اگرچہ ریگولیٹرز نے حالیہ برسوں میں نیٹ میٹرنگ پالیسیز کی منظوری دی ہے اور درآمدی پابندیوں میں نرمی بھی کی ہے، لیکن گھریلو اور کمرشل سطح پر سولر ٹیکنالوجی اپنانے کی رفتار کے مطابق نہ تو کوئی بڑا سرکاری مالی معاونت کا پروگرام متعارف کروایا گیا ہے اور نہ ہی بڑے پیمانے پر سولر منصوبوں کی نیلامی کی گئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ریکارڈ حجم میں سولر پینلز درآمد کرنے کے باوجود، پاکستان کی سرکاری گرڈ سے منسلک سولر صلاحیت بہت کم رہتی ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ تر نئی سولر آف-گرڈ یا میٹر کے پیچھے کام کر رہی ہے، جہاں یہ قومی بجلی کے اعداد و شمار میں شامل نہیں ہوتی۔

سطح زمین کی تنصیبات اور سرکاری منصوبہ بندی کے درمیان یہ اختلاف پہلے ہی تشویش کا باعث بن رہا ہے۔ گرڈ آپریٹرز اور یوٹیلیٹی کمپنیاں وسیع پیمانے پر خود پیداوار کے اثرات کے ساتھ موافقت کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں، خاص طور پر شہری علاقوں میں جہاں اعلیٰ قیمت والے گاہک دن کے دوران اپنی بجلی خود پیدا کر رہے ہیں اور گرڈ پر صرف بیک اپ کے طور پر انحصار کر رہے ہیں۔

یہ متحرک رجحان، جسے بعض اوقات ’یوٹیلٹی ڈیتھ سپائرل‘ بھی کہا جاتا ہے، عوامی توانائی فراہم کرنے والے اداروں کی مالی بنیاد کو کمزور کر سکتا ہے، جبکہ شام کے اوقاتِ کار میں بجلی کے نظام پر نیا دباؤ بھی ڈال سکتا ہے۔

اپنے تجزیے میں، ایمبر نے خبردار کیا ہے کہ اس قسم کی تیز، غیر مرکزی ترقی کو عدم استحکام سے بچنے کے لیے اپ ڈیٹ شدہ منصوبہ بندی اور ریگولیٹری ٹولز کی ضرورت ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’اس تعیناتی کے ساتھ اپ ڈیٹ شدہ سسٹم منصوبہ بندی اور ریگولیٹری فریم ورک کی ضرورت ہے تاکہ ایک پائیدار اور منظم منتقلی کو یقینی بنایا جا سکے۔‘

اگرچہ توجہ زیادہ تر سولر پر مرکوز رہی ہے، لیکن پاکستان کے وسیع تر قابلِ تجدید توانائی کے نظام میں ہوا، ہائیڈرو پاور اور بایو انرجی کا کردار بھی بڑھتا جا رہا ہے۔

تاہم، سولر اب تک سب سے تیزی سے فروغ پانے والا شعبہ ہے، خاص طور پر اس لیے کہ یہ کم پیمانے پر اور کم سے کم سرکاری رکاوٹوں کے ساتھ نصب کیا جا سکتا ہے۔

ایک ایسے ملک میں جہاں طویل عرصے سے گورننس اور انفراسٹرکچر فراہمی کے مسائل موجود ہیں، سولر ٹیکنالوجی کی ماڈیولر خصوصیت نے بڑی سرکاری سرمایہ کاری کے بغیر بھی اس کی اپنائیت ممکن بنائی ہے۔

2024 کے درآمدی اعداد و شمار صرف صارفین کی دلچسپی میں اضافے کی عکاسی نہیں کرتے، بلکہ یہ دنیا بھر میں سولر ٹیکنالوجی، خاص طور پر چین میں تیار کردہ سولر ماڈیولز کی گرتی ہوئی قیمتوں کی جانب بھی اشارہ کرتے ہیں، جو کہ بین الاقوامی سپلائی چین پر حاوی ہیں۔

سولر آلات کی قیمتوں میں کمی، مقامی ایندھن کی غیر مستحکم لاگت اور مستقل بجلی کی قلت نے مل کر سولر کو آج پاکستان میں توانائی کے سب سے زیادہ معاشی طور پر قابلِ عمل حل بنا دیا ہے۔

اس کے باوجود، توانائی کی منتقلی کے عمل میں کئی اہم خلا باقی ہیں۔ نظام کے معیار، سٹوریج کی تنصیب اور گرڈ بیلنسنگ میکنزمز پر مناسب نگرانی نہ ہونے کے باعث، پاکستان اپنے صاف توانائی کے فروغ کے طویل مدتی فوائد کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

اگر مضبوط ڈیٹا، شفاف منصوبہ بندی اور گرڈ کو جدید بنانے کے لیے سرمایہ کاری موجود نہ رہی تو موجودہ سولر اپنانے کی لہر رسائی اور بھروسے کے حوالے سے موجودہ عدم مساوات کو مزید بڑھا سکتی ہے۔

اس کے باوجود، پاکستان کے تجربے سے ملنے والا مجموعی پیغام واضح ہے: صاف توانائی کا اپنانا اب صرف امیر ممالک یا زیادہ آلودگی پھیلانے والی معیشتوں تک محدود نہیں رہا۔

جب معیشت اس کی اجازت دے اور رکاوٹیں کم ہوں، تو توانائی کی منتقلی بہت تیزی سے ممکن ہو سکتی ہے — یہاں تک کہ ان جگہوں پر بھی جہاں پالیسی ہمیشہ سے ارادوں کے پیچھے رہی ہو۔

پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ چاہے بےترتیب اور غیر متوازن ہو، لیکن اس کی عالمی اہمیت ہے۔ یہ ایک خاکہ — یا کم از کم ایک اشارہ — پیش کرتا ہے کہ عالمی جنوب (Global South) کے بیشتر ممالک میں توانائی کی منتقلی کس شکل میں سامنے آ سکتی ہے۔ ایک ایسا عمل جو اوپر سے نیچے تک سرکاری منصوبہ بندی سے نہیں، بلکہ نچلی سطح پر طلب، ضرورت اور معیشت کی بنیاد پر خود سے آگے بڑھتا ہے۔

امجد کے مطابق: یہی رجحان پاکستان کو توانائی کے ایک نئے ماڈل کی ابتدائی مثال بناتا ہے۔

وہ کہتے ہیں: ’عالمی جنوب کی معیشتوں کے لیے یہ توانائی کی منتقلی کا ایک متبادل ماڈل پیش کرتا ہے — ایک نیچے سے اوپر تک ابھرتا ہوا، عوام کی قیادت میں اور مارکیٹ کی بنیاد پر چلنے والا ماڈل، جو صاف، سستی اور تقسیم شدہ توانائی تک محفوظ اور جمہوری رسائی فراہم کرتا ہے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ بیٹری سٹوریج بھی سولر کی طرح ہی راستہ اختیار کرے گا — سستا، ماڈیولر، اور گرڈ کے مرکز کے بجائے اس کے کناروں پر تیزی سے اپنایا جائے گا۔

’چونکہ بیٹریوں کی قیمتوں میں بھی سولر کی طرح کمی متوقع ہے، اس لیے جیسے جیسے درآمدی ایندھن کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ جاری رہے گا، عالمی جنوب میں قابلِ تجدید توانائی کی منتقلی کی رفتار بھی یقینی طور پر تیز ہوتی جائے گی۔‘

فوسل فیول نان پرولیفریشن ٹریٹی انیشی ایٹو کے سٹریٹجک ایڈوائزر، ہرجیت سنگھ کہتے ہیں کہ پاکستان کی کہانی یہ دکھاتی ہے کہ سولر صرف ایک سبز متبادل نہیں، بلکہ ایک سستا اور قابلِ رسائی حل بھی ہے۔

پاکستان جیسے ممالک میں سولر توانائی کی زبردست ترقی اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ سولر اب صرف ماحولیاتی انتخاب نہیں رہا – یہ ایک طاقت ور اقتصادی حل بن چکا ہے، خاص طور پر ترقی پذیر دنیا کے لیے۔ فوسل ایندھن کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ، بجلی کے بڑھتے بلز اور اکثر غیر مستحکم گرڈز کا سامنا کرتے ہوئے، گھریلو اور کاروباری ادارے سولر کو اپناتے ہیں کیونکہ یہ ایک سستا، صاف، اور زیادہ قابلِ اعتماد توانائی کا ذریعہ فراہم کرتا ہے،‘

سنگھ کا کہنا ہے: ’اب یہ صرف کاربن کے اخراج کو کم کرنے کا معاملہ نہیں رہا؛ یہ بنیادی طور پر توانائی کی رسائی کو یقینی بنانے، اقتصادی استحکام کو فروغ دینے، اور توانائی کی سیکیورٹی کو بنیاد سے مضبوط کرنے کا معاملہ ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی