پاکستان اور افغان طالبان نے افعان امن عمل کے جلد واپس شروع ہونے کی اہمیت پر اتفاق کیا ہے۔
جمعرات کو جاری ایک اعلامیے کے مطابق دفتر خارجہ اسلام آباد میں پاکستان اور افغان طالبان کے وفد کے درمیان ملاقات ہوئی جس میں دونوں اطراف سے افغان امن عمل کی جلد بحالی کی اہمیت پر اتفاق کیا گیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ ماہ افغانسان میں حملے میں امریکی فوجی کی ہلاکت کے بعد طالبان اور امریکہ میں جاری مذاکرات کو منسوخ کر دیا تھا۔
جمعرات کی ملاقات میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاکستانی وفد کی قیادت کی جبکہ افغان وفد کی قیادت ملا عبدالغنی برادر نے کی۔
اعلامیے کے مطابق شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغان امن عمل کو کامیاب بنانے میں پاکستان اپنا سہولت کار کا کردار ادا کرتا رہے گا۔
وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ افغام امن عمل کا واپس شروع ہونا افغانستان میں امن اور استحکام کو قائم کرنے کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے اور افغانستان میں امن کے لیے مذاکرات ہی واحد راستہ ہیں۔
افغان طالبان کا وفد بدھ کو پاکسان آیا تھا۔
بدھ کو ہونے والی ملاقاتوں کے بعد افغان طالبان کا کہنا تھا کہ ان کے نمائندہ وفد کی امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد سے پاکستان میں ملاقات ہونے کے امکانات موجود ہیں۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ چاہے تو پاکستان میں ہماری ملاقات کا امکان موجود ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے ٹیلی فون کے ذریعے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اگرچہ پہلے سے کوئی ملاقات طے نہیں ہے تاہم ایسی کسی ملاقات کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
یاد رہے کہ افغان طالبان کے سیاسی دفتر کا 12 رکنی نمائندہ وفد ملا عبدالغنی بردار کی سربراہی میں بدھ کی رات سے اسلام آباد میں موجود ہے۔
امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد بھی پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت سے ملاقات کے لیے اسلام آباد میں موجود ہیں۔
زلمے خلیل زاد کی ٹیم سے متعلق ذرائع نے بتایا کہ وہ گذشتہ ہفتے جنرل اسمبلی کے اجلاس کی سائڈ لائنز پر صدر ٹرمپ اور عمران خان کے درمیان مذاکرات کے بعد مزید تبادلہ خیال کے لیے اسلام آباد آئے ہیں اور ان کے دورے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ امریکہ او ر طالبان کے درمیان امن مذاکرات دوبارہ شروع ہونے والے ہیں۔
افغانستان میں 18 سالہ طویل جنگ کے خاتمے کے لیے امریکہ اور طالبان کے مابین مذاکرات کئی ماہ تک جاری رہے تھے۔ تاہم امن مذاکرات کسی سمجھوتے پر پہنچنے کے قریب تھے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اچانک ان کے خاتمے کا اعلان کر دیا تھا۔
امن مذاکرات کے خاتمے کی وجہ افغانستان میں ایک خود کش حملے میں امریکی فوجی کی ہلاکت کو بنایا گیا۔
سہیل شاہین نے کہا کہ طالبان نمائندہ وفد کا دورہ افغان طالبان کی جانب سے خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات اور روابط کا حصہ ہے۔
تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں موجود ہمارے وفد اور زلمے خلیل زاد کے درمیان ملاقات کا انحصار امریکہ پر ہے۔
ماضی میں بھی افغان طالبان نے پاکستان کے ساتھ بات چیت کے لیے اسلام آباد آنے کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن پاکستان نے اسے افغان حکومت کی مخالفت کے بعد موخر کر دیا تھا۔ اس مرتبہ نہیں معلوم کہ آیا یہ دورہ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی رضامندی سے ہو رہا ہے یا نہیں۔
سہیل شاہین نے ایک ٹویٹ میں وفد کی روانگی کا اعلان کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ دورہ ’جنگ کے خاتمے اور صلح کی کوششوں کا حصہ ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ دورے کے دوران طالبان کا وفد پاکستانی وزارت خارجہ کے سینئیر اہلکاروں سے ملاقاتوں میں اور امن کے عمل کے علاوہ پاکستان میں افغان مہاجرین اور دوسرے دو طرفہ معاملات پر گفتگو کرے گا۔
افغان طالبان کے قطر میں سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے ایک ٹویٹ میں وفد کی روانگی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ دورہ ’جنگ کے خاتمے اور صلح کی کوششوں کا حصہ ہے۔‘
د ا.ا.ا. د سیاسي مرستیال محترم ملا برادر اخند په مشري یو لوړ پوړی پلاوی سبا د اکتوبر په ۲مه په رسمي بلنه اسلام اباد ته سفر کوي.هلته به دیاد هیواد له چارواکو سره په یولړ مهمو موضوعاتو خبري وکړي.دا له روسیې،چین او ایران وروسته څلورم رسمي سفر دی چي دسیمي هیوادو نو ته تر سره کیږي.
— Suhail Shaheen (@suhailshaheen1) October 1, 2019
تاہم طالبان کے ترجمان سہیل شاہین اس وفد کے ساتھ اسلام آباد نہیں آئے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب یہ وفد ترتیب دیا جا رہا تھا وہ ماسکو دورے پر تھے اس لیے ساتھ نہیں آسکے۔
یہ دورہ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب 28 ستمبر کو افغانستان میں صدارتی انتخابات ہوئے ہیں جو کم ترین ووٹنگ ٹرن آؤٹ اور پر تشدد واقعات سے متاثر رہے۔ صدارتی انتخابات میں ووٹ کی گنتی کا مرحلہ مکمل ہونے میں تین ہفتوں کا وقت لگ سکتا ہے۔
ادھر روس نے بھی اعلان کیا ہے کہ اس ماہ وہ ماسکو میں افغان مصالحتی کوششوں کے سلسلے میں ایک اجلاس منعقد کر رہا ہے۔ اس اجلاس میں روس، امریکہ، چین اور پاکستان شرکت کریں گے۔
سیننئر صحافی سمیع یوسفزئی نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ اس وقت اسلام آباد میں ملا بردار، زلمے خلیل زاد اور امریکی جنرل ملر اسلام آباد میں موجود ہیں۔ ’پاکستان بہت اچھا کھیل رہا ہے۔۔۔۔ دیکھنا ہے کہ اس مختلف مقام گفتگو سے مذاکرات پر کیا اثر پڑتا ہے۔‘
Mullah Baradar , Khalilzzd and General Miller in Islamabad .
Pakistan is plying exceptionly well .. let's see how a new venue of USA and Taliban talks could change the the cenario .. Pakistan knw peace with Tiliban vital for P.Trump and Trump understood Pakistan's needs
— Sami Yousafzai (@Samiyousafzai) October 2, 2019
اس سے قبل امریکہ کے ساتھ مذاکرات معطل ہونے کے بعد طالبان وفد نے 29 ستمبر کو بیجنگ کا دورہ کیا تھا اور چینی نمائندہ خصوصی ڈینگ ژی جون سے ملاقات کی تھی۔ طالبان وفد 14 ستمبر کو روس بھی گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افغانستان میں 18 سالہ طویل جنگ کے خاتمے کے لیے امریکہ اور طالبان کے مابین کئی ماہ سے جاری امن مذاکرات کسی سمجھوتے پر پہنچنے کے قریب تھے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مریکی فوجی کی افغانستان میں ہلاکت کو وجہ بنا کر اچانک ان کے خاتمے کا اعلان کر دیا تھا۔
امریکی کانگریس کمیٹی کی جانب سے طلب کیے جانے پر زلمے خلیل زاد نے اراکین کانگریس کو ایک خفیہ بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ طالبان کے ساتھ معاہدہ ختم ہوچکا۔
انہوں نے حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کے موقع پر ان سے بھی ملاقات کی تھی اور طالبان کے ساتھ مذاکرات معطل ہونے سے قبل ایک سال سے جاری بات چیت میں ہونے والی پیش رفت کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔