انڈیا کے سابق وزیر اعظم اور نامور ماہر معیشت من موہن سنگھ چل بسے

انڈیا کے پہلے سکھ وزیر اعظم من موہن سنگھ 92 سال کی عمر میں طبی وجوہات کی بنا پر انتقال کر گئے۔

سابق انڈین وزیر اعظم منموہن سنگھ آٹھ جنوری 2014 کو نئی دہلی میں 12ویں اوورسیز انڈین کانفرنس کی افتتاحی تقریب کے دوران موجود ہیں (رویندرن/ اے ایف پی)

اپنی پہلی وزارتِ عظمیٰ کے دوران ’ریلکٹنٹ کنگ‘ کے طور پر بیان کیے جانے والے اور دھیمے لہجے کے حامل ڈاکٹر منموہن سنگھ جمعرات کو 92 سال کی عمر میں چل بسے۔

انڈین حکومت نے ڈاکٹر من موہن سنگھ کی سرکاری تدفین کرنے اور سات دن کے سرکاری سوگ منانے کا اعلان کیا ہے۔

جمعے کو ایک حکومتی بیان میں کہا گیا کہ ’جاں بحق ہونے والے کے احترام کے طور پر، یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پورے انڈیا میں سات دن کا سرکاری سوگ منایا جائے گا۔‘ سوگ یکم جنوری تک جاری رہے گا اور اس دوران قومی پرچم سر نگوں رکھا جائے گا۔

انڈین کرکٹ ٹیم چوتھے ٹیسٹ میں میزبان آسٹریلیا کے خلاف من موہن سنگھ کے لیے احترام کا اظہار کرتے ہوئے بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر جمعے کو گراؤنڈ میں اتری۔

انڈیا کے سب سے کامیاب رہنماؤں میں شمار ہونے والے اور ملک کے پہلے سکھ وزیراعظم منموہن سنگھ کوعمر رسیدگی سے متعلق طبی مسائل کا سامنا تھا۔

انہیں جمعرات کو اچانک بے ہوش ہونے کے بعد ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ جانبر نہ ہو سکے۔

انہیں انڈیا کو بے مثال اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے اور کروڑوں افراد کو شدید غربت سے نکالنے کا سہرا دیا جاتا ہے۔

وہ نایاب طور پر دوسری مدتِ حکومت کرنے والے رہنماؤں میں شامل تھے۔

وزیراعظم نریندر مودی نے ان کے انتقال پر کہا: ’انڈیا ایک عظیم رہنما ڈاکٹر منموہن سنگھ جی کے انتقال پر سوگوار ہے۔‘

انہوں نے ماہرِ معاشیات سے سیاست دان بننے والے من موہن سنگھ کے کاموں کو سراہا۔

من موہن سنگھ برطانوی ہندوستان کے اس حصے میں پیدا ہوئے، جو اب پاکستان کا حصہ ہے۔

وہ موم بتی کی روشنی میں پڑھتے ہوئے کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوئے۔

بعد ازاں انہوں نے آکسفورڈ کا رخ کیا اور انڈین معیشت میں برآمدات اور آزاد تجارت کے کردار پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

وہ ایک معتبر ماہرِ معاشیات، انڈیا کے مرکزی بینک کے گورنر اور حکومت کے مشیر بنے۔

بظاہر ان کے سیاسی شعبے میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، لیکن اچانک انہیں 1991 میں وزیرِ خزانہ بنا دیا گیا۔

1996  تک جاری رہنے والی اس مدت کے دوران من موہن سنگھ نے ان اصلاحات کی بنیاد رکھی جنہوں نے انڈیا کو ادائیگیوں کے شدید بحران سے بچایا، ضوابط میں نرمی کی اور دیگر ایسے اقدامات کیے جنہوں نے ایک بند ملک کو دنیا کے لیے کھولا۔

اپنی پہلی بجٹ تقریر میں وکٹر ہیوگو کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا: ’دنیا کی کوئی طاقت اس خیال کو روک نہیں سکتی جس کا وقت آ چکا ہو۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’انڈیا کا ایک بڑی اقتصادی قوت کے طور پر ابھرنا ایسا ہی ایک خیال ہے۔‘

2004  میں وزیراعظم بننا ان کے لیے اور بھی غیر متوقع تھا۔ انہیں کانگریس پارٹی کی قیادت کرنے والی سونیا گاندھی نے یہ عہدہ سنبھالنے کو کہا۔

اٹلی میں پیدا ہونے والی سونیا کو خدشہ تھا کہ اگر وہ وزیر اعظم بنیں تو ہندو قوم پرست مخالفین ان کے آبائی تعلق کو حکومت پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔

اقتصادی ترقی کے بے مثال دور کے دوران من موہن سنگھ کی حکومت نے ملک کی نئی دولت کو شیئر کرتے ہوئے دیہی غریبوں کے لیے روزگار کے پروگرام جیسے فلاحی منصوبے متعارف کرائے۔

2008  میں ان کی حکومت نے امریکہ کے ساتھ ایک تاریخی معاہدہ کیا جس نے تین دہائیوں میں پہلی بار جوہری توانائی کے پرامن استعمال کی تجارت کی اجازت دی۔

اس سے نئی دہلی اور واشنگٹن کے درمیان مضبوط تعلقات کی راہ ہموار ہوئی۔ تاہم ان کی کوششوں کو اکثر سیاسی رسہ کشی اور اتحادی شراکت داروں کے مطالبات نے مفلوج کیا۔

’تاریخ میرے ساتھ مہربانی کرے گی‘

اگرچہ انہیں دیگر عالمی رہنماؤں نے وسیع پیمانے پر عزت دی، لیکن انڈیا میں انہیں ہمیشہ یہ تاثر دور کرنا پڑا کہ سونیا گاندھی حکومت میں اصل طاقت ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کی بیوہ سونیا کانگریس پارٹی کی رہنما رہیں اور اکثر اہم فیصلے کرتی تھیں۔

سادہ طرزِ زندگی اور ایمان داری کی شہرت رکھنے والے من موہن سنگھ کو ذاتی طور پر بدعنوان نہیں سمجھا جاتا تھا۔

لیکن وہ اپنے حکومتی اراکین کے خلاف سخت کارروائی کرنے میں ناکامی پر تنقید کی زد میں آئے، جب ان کی دوسری مدت کے دوران کئی سکینڈلز سامنے آئے۔

وزارتِ عظمیٰ کے آخری برسوں میں، جو اقتصادی ترقی کی کہانی انہوں نے تعمیر کی تھی، وہ عالمی اقتصادی اتار چڑھاؤ اور سست سرکاری فیصلے سازی کی وجہ سے متاثر ہوئی۔

2012  میں ان کی حکومت اس وقت اقلیت میں آ گئی، جب کانگریس پارٹی کے سب سے بڑے اتحادی نے غیر ملکی سپر مارکیٹوں کے ملک میں داخلے پر احتجاج کرتے ہوئے اتحاد چھوڑ دیا۔

دو سال بعد کانگریس پارٹی کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہاتھوں زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا، جس کی قیادت نریندر مودی کر رہے تھے۔

دفتر چھوڑنے سے چند ماہ قبل من موہن سنگھ نے ایک پریس کانفرنس میں اصرار کیا کہ انہوں نے اپنی پوری کوشش کی۔

’میں دیانت داری سے یقین رکھتا ہوں میڈیا یا اس سے بھی بڑھ کر پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتوں کے مقابلے میں تاریخ میرے ساتھ مہربانی کرے گی۔‘

من موہن سنگھ کے پسماندگان میں بیوہ اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا