مصنوعی ذہانت ہماری موجودہ زندگی کو مسلسل نئی شکل دے رہی ہے۔ جہاں یہ انسانیت، تخلیق اور ثقافت کے تجربات کو متاثر کر رہی ہے، وہیں انسانی شناخت اور اقدار کے تحفظ پر خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔
ہم علم کے ایسے نظام تیار کر رہے ہیں جنہیں فی الحال جزوی سمجھا جا رہا ہے۔ یہ نظام اکثر ناقابل پیش گوئی ہیں، جس کی وجہ سے انسانی کنٹرول اور حدود کے لیے ضوابط کی ضرورت پیش آ رہی ہے۔
اس مضمون میں مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کو اپنانے کی بے مثال رفتار، ڈیٹا کی تیاری میں زبردست اضافے، ڈیٹا سینٹرز کی بڑھتی ہوئی مانگ اور تیزی سے بڑھتی ہوئی کمپیوٹنگ کے لیے درکار توانائی پر روشنی ڈالی جا رہی ہے۔
اس میں اس بات پر بھی زور گیا ہے کہ جاری ماحولیاتی بحران کے دور میں ایک مضبوط ڈیجیٹل اور توانائی کے بنیادی ڈھانچے کو قائم کرنے کے لیے کثیر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
ڈیٹا کی ترقی 2010 میں سوشل میڈیا کے ساتھ معمولی طور پر شروع ہوئی اور 2015 میں سٹریمنگ اور مواد کی تخلیق کے ساتھ بڑھی۔
2022 کے آخر میں چیٹ جی پی ٹی کے سامنے آنے کے ساتھ تیزی سے بڑھ گئی۔
آج مصنوعی ذہانت کو کئی ایپلی کیشنز کا حصہ بنا دیا گیا ہے اور لوگ اس بات سے زیادہ واقف ہو رہے ہیں کہ ان جدید اے آئی ماڈلز کو چلانے کے لیے کتنی زیادہ توانائی درکار ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر جہاں ایک گوگل سرچ بنیادی توانائی استعمال کرتی ہے، وہیں زبان سے متعلق مصنوعی ذہانت کا ماڈل (مثال کے طور پرچیٹ جی پی ٹی) 10 گنا، امیج اے آئی مثلاً (DALL-E) 320 گنا اور ویڈیو اے آئی (جیسے کہ سورا) حیرت انگیز طور پر 10 ہزار گنا زیادہ توانائی استعمال کرتا ہے
یہ صورت حال ہمارے ڈیجیٹل اور توانائی کے بنیادی ڈھانچے کی مکمل تنظیم نو کا تقاضا کرتی ہے۔
ایمزون کی عالمی سرمایہ کاری اس سال 50 ارب ڈالر سے تجاوز کرنے کی توقع ہے جب کہ میٹا اپنی ایپلی کیشنز، بشمول وٹس ایپ، فیس بک اور انسٹاگرام کے استعمال میں زبردست اضافے سے نمٹنے کے لیے سرمایہ کاری بڑھا رہا ہے۔
وٹس ایپ اکیلا دنیا بھر میں 2.8 ارب سے زیادہ صارفین پر فخر کرتا ہے۔ ویڈیو مواد اس کے استعمال کے رجحان کو فروغ دے رہا ہے۔
اگرچہ انٹرنیٹ ای کامرس کے لیے کم لاگت والی تکنیکی سہولت فراہم کرتا ہے، لیکن مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی مہنگی ہے اور اس کے اخراجات کو جواز دینے کے لیے پیچیدہ مسائل حل کرنے کی صلاحیت ضروری ہے۔
مصنوعی ذہانت کو تربیت دینے کے لیے بڑی سرمایہ کاری اور توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس توقع کے ساتھ کہ یہ اخراجات فائدے میں تبدیل ہوں گے۔
حامیوں کا ماننا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی وسیع مقدار میں ڈیٹا کو تیزی سے پروسیس کرنے کی صلاحیت توانائی کی بچت اور بیماریوں اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے اہم مسائل کے حل میں مددگار ثابت ہوگی۔
گوگل اور بوسٹن کنسلٹنگ گروپ کی ایک رپورٹ کے مطابق اے آئی ممکنہ طور پر 2030 تک عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو پانچ سے 10 فیصد تک کم کر سکتی ہے۔
رپورٹ میں اس کے مختلف قسم کے استعمال پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مثال کے طور پر ڈرائیورز اور پائلٹس کے لیے ایندھن کی بچت والے راستوں کو بہتر بنانا اور طیاروں کے چھوڑے ہوئے آلودہ دھوئیں کو کم کرنا۔
تاہم مالیاتی شعبے میں تخلیقی مصنوعی ذہانت کے حوالے سے شکوک و شبہات رکھنے والے ناقدین کا کہنا ہے کہ اقتصادی ثمرات کے ممکنہ دعوے مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں اور بنیادی طور پر بڑی ٹیک کمپنیوں کے مفادات کے لیے ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ اے آئی کے پاس اپنے وعدے پورے کرنے کے لیے تقریباً 18 ماہ کا وقت ہے، ورنہ سرمایہ کاروں کی دلچسپی ختم ہو جائے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مصنوعی ذہانت کے شعبے میں برتری کے لیے مقابلہ ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے جہاں ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نیا چیلنج بنتی جا رہی ہے۔
توانائی وہ سب سے اہم عنصر ہے جو بڑی ٹیک کمپنیوں کو مصنوعی ذہانت کی تربیت کے لیے نئے مقامات، ایسی زمین جہاں بجلی موجود ہو، اور ماحول دوست توانائی تلاش کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔
روایتی مقامات اتنی بڑی اور جدید سہولیات کے لیے درکار جگہ، بجلی، یا بنیادی ڈھانچہ فراہم نہیں کر سکتے جو اب کلاؤڈ سروسز اور مصنوعی ذہانت کے کاموں کو چلانے کے لیے ضروری ہیں۔
نتیجتاً بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں ایسے مقامات کا جائزہ لے رہی ہیں جہاں توانائی مستحکم اور کم لاگت میں دستیاب ہو، اور یہ رجحان 2025 میں بھی نمایاں رہے گا جب مختلف ممالک انہیں اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے مقابلہ کریں گے۔
نارڈک خطہ، اپنے سرد موسم اور وافر قابل تجدید توانائی کے ساتھ، اس میدان میں نمایاں افادیت کا حامل ہے۔
چوں کہ سرمایہ کاروں کی ایک محدود تعداد ہی تکنیکی مہارت اور بھاری سرمایہ کی حامل ہے جو ایک کھرب ڈالر کی ڈیجیٹل تبدیلی اور توانائی کی منتقلی میں مدد دے سکتی ہے۔
ترقی غالباً چند منتخب نجی اور عوامی فنڈز تک محدود رہے گی جن کے پاس واضح فکر اور حکمت عملی ہوگی۔
یہ توقع کی جا رہی ہے کہ بڑی کمپنیاں جن میں میٹا، ایمزون، مائیکروسافٹ، اوریکل، اور گوگل شامل ہیں، ڈیٹا اور توانائی کے بنیادی ڈھانچے میں ایک کھرب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کریں گی۔
سعودی عرب کا پروجیکٹ ٹرانسینڈنس 100 ارب کا فنڈ حاصل کرنے کا ہدف رکھتا ہے، جو ملک کو ترقی کے مرکز، شراکت داریوں کے مقام، اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے سے چلنے والے ڈیجیٹل اور توانائی کے بنیادی ڈھانچے کے میدان میں ابھرتے ہوئے دعویدار کے طور پر متعارف کراتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر اس سے قبل عرب نیوز میں پوسٹ ہو چکی ہے۔
لینا تیارا مشیر ہیں جو ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچے کی صنعت میں کاروباری ترقی، مارکیٹ ریسرچ، اور اپنے پلیٹ فارم ’لٹ اس ٹاک ٹیک‘ کے ذریعے خیالات کے فروغ پر کام کر رہی ہیں۔
یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔