جب نومبر 2022 میں چیٹ جی پی ٹی کا آغاز ہوا تو اس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور یہ توقع قائم ہو گئی کہ اب دنیا بہت جلد ہمیشہ کے لیے بدل جائے گی۔
اس چیٹ باٹ نے، جو ذہین انسان کی طرح دنیا بھر کے موضوعات پر گفتگو کر سکتا تھا، تاریخی، علمی، سائنسی اور طبی سوالوں کے جواب دے سکتا تھا، حتیٰ کہ شاعری بھی کر سکتا تھا، صرف چند ہفتوں کے اندر اندر 10 کروڑ صارفین کو اپنی طرف متوجہ کیا، جو تاریخ میں کسی بھی پراڈکٹ کی سب سے تیز رفتار کامیابی ہے۔
سرمایہ کار بھی بڑی تعداد میں اس میدان میں داخل ہوئے اور توقع ہے کہ 2024 سے 2027 کے درمیان مصنوعی ذہانت کے ڈیٹا سینٹرز پر خرچ 1.4 ڈالر کھرب سے تجاوز کر جائے گا۔
اے آئی چپس بنانے والے سرکردہ سینٹر این ویڈیا کی مارکیٹ ویلیو آٹھ گنا بڑھ کر تین کھرب ڈالر سے زیادہ ہو چکی ہے۔
لیکن اب دو سال گزرنے کے بعد بظاہر ایسا لگتا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی کے ابتدائی دنوں میں جو امیدیں قائم ہوئی تھیں وہ پوری نہیں ہو رہیں۔
یہ اور اس سے ملتے جلتے دوسرے چیٹ باٹ اب بھی انتہائی بنیادی غلطیاں کر رہے ہیں، وہ جو معلومات فراہم کر رہے ہیں ان پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا اور بعض اوقات وہ ایسا کوئی جواب دے دیتے ہیں جنہیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیا یہ واقعی ’ذہانت‘ ہی ہے؟
یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر کمپنیاں اب بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی کیا کر سکتی ہے اور کیا نہیں، یا اسے بہترین طریقے سے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
صرف پانچ فیصد امریکی کاروبار یہ کہتے ہیں کہ وہ اپنی مصنوعات اور خدمات میں مصنوعی ذہانت استعمال کر رہے ہیں۔
اس سے آگے بڑھ کر یہ کہ بہت کم اے آئی سٹارٹ اپس منافع کما رہے ہیں۔ اے آئی ماڈلز بنانے پر توانائی اور ڈیٹا کی بڑھتی ہوئی پابندیاں مزید مشکل ہوتی جا رہی ہیں۔
سرمایہ کاروں کے جوش و خروش اور کاروباری حقیقت کے درمیان یہ فرق ناقابل برداشت دکھائی دیتا ہے جس کا مطلب ہے کہ 2025 ایک فیصلہ کن سال کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔
مصنوعی ذہانت کو زیادہ مؤثر اور کارآمد بنانے کی دوڑ جاری ہے، اس سے پہلے کہ سرمایہ کار اپنی دلچسپی کھو دیں۔
کئی رکاوٹیں ایسی ہیں جو تکنیکی حدود کو مزید آگے بڑھانے کی رفتار کم کر رہی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق چیٹ جی پی ٹی ایک سوال کا جواب دینے پر تقریباً 2.9 واٹ آور بجلی استعمال کرتا ہے، جو گوگل سرچ کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ ہے، جب کہ چیٹ جی پی ٹی روزانہ 20 کروڑ سوالوں کے جواب دیتا ہے۔
یہ اتنی توانائی ہے جس سے 31 لاکھ الیکٹرک گاڑیاں چارج کی جا سکتی ہیں۔
اس سے بھی آگے بڑھ کر مصنوعی ذہانت کے بڑے ماڈلز کی تربیت کے لیے بہت بڑی مقدار میں توانائی درکار ہوتی ہے۔
جی پی ٹی فور کو، جو چیٹ جی پی ٹی کے پیچھے موجود بڑا لینگویج ماڈل ہے، تربیت دینے میں جتنی بجلی استعمال ہوئی، وہ پانچ ہزار امریکی گھروں کو ایک سال تک بجلی فراہم کرنے کے لیے کافی تھی۔
اس کے پیش رو جی پی ٹی تھری کے لیے یہ تعداد صرف 100 تھی۔ زیادہ بڑے اور تیز ماڈلز کی تیاری کے لیے بےتحاشا وسائل کی ضرورت ہے۔
اندازے کے مطابق اگلی نسل کے ماڈلز کو تربیت دینے پر ایک ارب ڈالر لاگت آ سکتی ہے اور جتنا بڑا ماڈل ہو گا، اتنی ہی ان سے سوالات پوچھنے پر آنے والی لاگت بھی بڑھے گی۔
تربیتی ڈیٹا کا فقدان بھی بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق متن کی شکل میں انٹرنیٹ پر موجود اعلیٰ معیار کے ڈیٹا کا ذخیرہ 2028 تک ختم ہو جائے گا۔
ثقافت کا بھی بہت اہم کردار ہے۔ حالانکہ بہت کم کمپنیاں شماریات دانوں کو بتاتی ہیں کہ وہ مصنوعی ذہانت استعمال کر رہی ہیں۔
امریکہ میں ایک تہائی ملازمین کہتے ہیں کہ وہ ہفتے میں کم از کم ایک بار کام کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہیں۔
یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ اے آئی کا استعمال اکثر خفیہ طور پر کیا جا رہا ہے۔ ملازمین اسے کام کو آسان بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر متن کو دوبارہ لکھنا یا رپورٹس تیار کرنا۔ ملازمین کو یہ خدشہ ہو سکتا ہے کہ اگر انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ اے آئی کی مدد سے کام جلدی مکمل کرتے ہیں، تو باس ان پر مزید کام کا بوجھ ڈال دیں گے یا یہ سمجھ لیں گے کہ کمپنی کو کم ملازمین کی ضرورت ہے۔
اس سے اشارہ ملتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کو اپنانا صرف ایک تکنیکی مسئلہ نہیں بلکہ ایک انتظامی چیلنج بھی ہے۔
ٹیکنالوجی کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ باس ایسی ثقافت پیدا کریں جو کھلے پن اور تجربے کی حوصلہ افزائی کرے نہ کہ راز داری اور شبے کو فروغ دے۔
دنیا بھر کی کمپنیاں ان مسائل کو حل کرنے کے لیے تیزی سے نئے اور مناسب حل تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔
مثال کے طور پر زیادہ مؤثر اور مخصوص چپس کی تیاری یا ایسے خصوصی اور چھوٹے ماڈلز تیار کرنا جو کم توانائی استعمال کریں۔
کچھ کمپنیاں اعلیٰ معیار کے نئے ڈیٹا ذرائع کو، جیسے درسی کتابیں، استعمال کرنے کے طریقے ڈھونڈ رہی ہیں یا تربیتی مقاصد کے لیے مصنوعی ڈیٹا تیار کر رہی ہیں۔
یہ ابھی تک واضح نہیں کہ آیا آنے والے دنوں میں تکنیکی ترقی میں بتدریج بہتری آئے گی یا اگلی بڑی پیش رفت قابل استطاعت اور ممکن بنے گی۔
سرمایہ کاروں نے اوپن اے آئی جیسی سپر سٹار کمپنیوں میں بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔ لیکن عملی طور پر اوپن اے آئی، اینتھروپک، اور گوگل کے پیش کردہ بڑے ماڈلز کی کارکردگی اور صلاحیتوں میں زیادہ فرق نہیں۔
دوسری کمپنیاں، جیسے میٹا، میسٹریل، اور ایکس اے آئی بھی ان کے قریب پہنچ رہی ہیں۔