کمبھ میلہ: 40 کروڑ یاتریوں کے ساتھ ’دنیا کا سب سے بڑا انسانی اجتماع‘

اس میلے کے لیے انڈیا اور دنیا بھر سے 40 کروڑ سے زیادہ عقیدت مند ہندوؤں کے مقدس شہر پریاگ راج کا سفر کر رہے ہیں جہاں وہ ہندو مت کے تین مقدس دریاؤں گنگا، جمنا اور تصوراتی دریا سرسوتی کے سنگم پر اشنان (غسل) کریں گے۔

13 جنوری، 2025 کو ہندو یاتری پریاگ راج میں مہا کمبھ میلے کے دوران گنگا، جمنا اور افسانوی سرسوتی ندیوں کے سنگم کے مقدس پانیوں میں ڈبکی لگا رہے ہیں (اے ایف پی)

انڈیا میں پیر کو دنیا کا سب سے بڑا مذہبی اجتماع یعنی چھ ہفتے طویل مہا کمبھ میلہ شمالی ریاست اتر پردیش (یوپی) میں شروع ہو گیا۔

اس میلے کے لیے انڈیا اور دنیا بھر سے 40 کروڑ سے زیادہ عقیدت مند ہندوؤں کے مقدس شہر پریاگ راج کا سفر کر رہے ہیں جہاں وہ ہندو مت کے تین مقدس دریاؤں گنگا، جمنا اور تصوراتی دریا سرسوتی کے سنگم پر اشنان (غسل) کریں گے۔

کمبھ میلہ ہر تین سال بعد ان مقدس دریاؤں کے کنارے مختلف شہروں میں منعقد ہوتا ہے لیکن مہا کمبھ میلہ ہر بارہ سال میں ایک بار ہوتا ہے۔

’مہا‘ کا ہندی میں مطلب عظیم ہے اور یہ تقریب سب سے زیادہ عقیدت مندوں کو اپنی جانب راغب کرتی ہے کیونکہ یہ اس مذہبی تسلسل میں سب سے زیادہ مقدس اور مبارک سمجھی جاتی ہے۔

یہ تہوار اس ہندو عقیدے میں جڑا ہوا ہے جس میں بھگوان وشنو نے امرت کا گھڑا برے دیوتاؤں سے چھین لیا تھا اور اس کے چند قطرے ان مقدس شہروں کی زمین پر گرے تھے۔

ہندو عقیدت مندوں کا ماننا ہے کہ مہا کمبھ میلہ کے دوران ان مقدس دریاؤں کے سنگم میں غسل کرنا پاپوں سے مُکتی (گناہوں سے معافی) اور جنم اور مرتیو (زندگی اور موت) کے چکر سے نجات فراہم کرتا ہے۔

اس تہوار کا حوالہ قدیم ہندو کتابوں کے ساتھ ساتھ دوسری ریاستوں سے آنے والے مسافروں کی کہانیوں میں بھی ملتا ہے۔

ساتویں صدی کے بدھ مت چینی سیاح ہیوین سانگ نے 644 عیسوی میں پریاگ کے اپنے دورے کے دوران دریاؤں کے سنگم پر اشنان کی رسم کا ذکر کیا ہے۔

اس تہوار کے اعداد و شمار حیران کن ہیں جہاں 40 کروڑ متوقع یاتریوں کی آمد کا تخمینہ ہے۔

حکام نے دریاؤں کے کنارے چار ہزار ہیکٹر زمین پر ایک نئی خیمہ بستی بسائی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہاں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ خیمے نصب کیے گئے ہیں جن کے ساتھ تین ہزار رسوئی گھر (باورچی خانے)، 145,000 بیت الخلا اور تقریباً 100 پارکنگ ایریاز بھی بنائے گئے ہیں۔

یہاں لاکھوں نئے بجلی کے کنکشن بھی دیے گئے ہیں کیونکہ اس تہوار کے دوران اتنی بجلی استعمال کی جائے گی جتنی اس خطے میں ایک لاکھ شہری اپارٹمنٹس ایک مہینے میں استعمال کرتے ہیں۔

اس دوران تقریباً 100 خصوصی ٹرینیں بھی شامل کی گئی ہیں جو زائرین کو پریاگ راج پہنچانے کے لیے تہوار کے دوران 3,300 بار چلیں گی۔

ریاستی پولیس نے سکیورٹی کے لیے اپنے 40,000 سے زیادہ اہلکار، ڈرونز اور سائبر جرائم کے ماہرین کو تعینات کیا ہے جو لوگوں کی نگرانی کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کریں گے۔

اتنے بڑے اجتماع کے ساتھ یہ تہوار حکام کے لیے لاکھوں افراد کی نقل و حرکت کو منظم کرنے کا ایک بڑا امتحان بھی ہے۔

تہوار کے دوران بھگدڑ کا خدشہ رہتا ہے جہاں 2013 میں آخری مہا کمبھ میلے کے دوران 26 عقیدت مند مارے گئے تھے جہاں اس بار ایک سو سے زیادہ روڈ ایمبولینسز، سات دریائی ایمبولینس اور فضائی ایمبولینسز کو ہنگامی حالات کے لیے تیار کیا گیا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ اس سال کے ایونٹ کے انعقاد کے لیے ریاستی حکومت نے تقریباً ساڑھے 76 کروڑ ڈالر (64 ارب انڈین روپے) مختص کیے ہیں۔

یوپی پولیس کے سربراہ پرشانت کمار نے کہا کہ ’یاتریوں کی حفاظت اور سکیورٹی ہماری ترجیح ہے۔‘

انڈیا اور دنیا بھر سے ہندو ہر 12 سال بعد مہا کمبھ کے لیے سفر کرتے ہیں، وہ نہ صرف اس تہوار کی رسومات میں حصہ لینے کے لیے آتے ہیں بلکہ ہزاروں زعفرانی لباس میں ملبوس سادھوں اور جوگیوں کو دیکھنے اور خود بھی دریاؤں میں تقریباً منجمد درجہ حرارت میں غسل کرتے ہیں۔

اس تہوار کے کامیاب انعقاد کو ریاستی اور قومی سطح پر حکمران ہندو قوم پرست بی جے پی حکومت کے لیے ایک حوصلہ افزا کامیابی کے طور پر دیکھا جائے گا۔

سخت گیر ہندو رہنما اور ریاست کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ ’اپنی ریاست میں ہندو مذہب کے ایک انتہائی مقدس تہوار کی میزبانی کرنا ان کی خوش نصیبی ہے۔‘

2021 میں ہندو قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے کمبھ میلے کو منسوخ کرنے سے انکار کر دیا تھا حالانکہ انڈیا میں اس سال کرونا کی وبا خطرناک حد تک بڑھ رہی تھی۔ اس وقت لاکھوں افراد اتر پردیش میں ماسک اور سماجی فاصلے کے بغیر جمع ہوئے۔

وسیع پیمانے پر خوف اور تنقید کے باوجود کہ یہ تہوار (وبا کے) بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کا باعث بنے گا، اسے منعقد کروانے کے فیصلے کو ناقدین نے ہندو اکثریتی ملک میں مذہبی رہنماؤں کو خوش کرنے کی کوشش قرار دیا تھا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا