ایپل نے 15 لاکھ آئی فون انڈیا سے امریکہ کیوں منتقل کیے؟

صدر ٹرمپ کی نئی ٹیرف پالیسی کے بعد تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ میں آئی فون کی قیمت میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے کیوں کہ کمپنی اپنے فونز کے لیے چین میں تیار کردہ پرزوں پر انحصار کرتی ہے۔

انڈیا کے شہر ممبئی میں 18 اپریل، 2023 کو شہری ایپل کے سٹور کے باہر موجود ہیں (اے ایف پی)

اس سے پہلے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نئی پالیسی کے تحت باقی دنیا پر ٹیرف عائد کرتے، ایپل نے مبینہ طور پر انڈیا سے 600 ٹن آئی فونز یعنی تقریباً 15 لاکھ فون  تیزی سے امریکہ بھیج دیے۔

ٹیکنالوجی کی دنیا کی اس دیوہیکل کمپنی نے خصوصی پروازیں انڈیا بھیجیں تاکہ جتنے زیادہ فون ممکن ہوں سکے آئی فون حاصل کر لے۔ شاید اس لیے کہ امریکہ میں اپنی فون کی دستیابی بڑھا سکے۔

تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ میں آئی فون کی قیمت میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے کیوں کہ کمپنی اپنے فونز کے لیے چین میں تیار کردہ پرزوں پر انحصار کرتی ہے۔ ایپل کا مرکزی مینوفیکچرنگ مرکز چین میں ہے جسے اس وقت ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ 125 فیصد ٹیرف کا سامنا کر رہا ہے۔

انڈیا سے درآمد ہونے والی اشیا پر 26 فیصد ٹیرف عائد ہے لیکن ٹرمپ نے عالمی سٹاک مارکیٹوں میں مندی کے رجحانات کے بعد 90 دن کے لیے اس درآمدی ٹیکس کا نفاذ روکنے کا اعلان کیا۔

ٹرمپ کو ٹیرف عائد کرنے کے بعد سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ حتیٰ کہ دیگر قدامت پسندوں کی جانب سے بھی۔ یہاں تک کہ ٹیسلا کے سی ای او اور ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفی شنسی کے سربراہ ایلون مسک، جو ٹرمپ کے سب سے بڑے حامیوں میں سے ایک اور بلاشبہ امیر ترین شخص ہیں، نے بھی گلہ کیا، کیوں کہ ٹیرف کے باعث مارکیٹ کے ردعمل نے ان کی ذاتی دولت کو شدید نقصان پہنچایا۔

مسک نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں امریکہ اور یورپ زیرو ٹیرف پالیسی کی جانب بڑھیں۔ اطلاعات کے مطابق انہوں نے ذاتی طور پر ٹرمپ سے درخواست کی کہ وہ ٹیرف واپس لیں۔ انہوں نے صدر کے تجارتی مشیر پیٹر نوارو کو بھی سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

کچھ عرصہ درآمدی ٹیکس میں اضافے پر قائم رہنے کے بعد، ٹرمپ نے بالآخر لچک دکھائی اور 90 دن تک ٹیرف نافذ نہ  کرنے کا اعلان کر دیا اور اس کی بجائے انہوں نے تمام ممالک پر 10 فیصد کا یکساں ٹیرف نافذ کر دیا، سوائے چین کے۔

ذرائع نے، جو کمپنی کے معاملات سے واقف ہیں، خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ایپل نے اس عارضی موقعے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تاکہ ’ٹیرف سے بچا‘ جا سکے۔

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ایپل نے چنئی ایئرپورٹ پر بھارتی حکام سے رابطہ کر کے کسٹمز کلیئرنس کا وقت 30 گھنٹے سے کم کر کے چھ گھنٹے کرانے کے لیے لابنگ کی۔

مارچ سے اب تک تقریباً چھ کارگو جہاز، جن میں سے ہر ایک میں 100 ٹن فون تھے، اس خطے سے روانہ ہو چکے ہیں۔ ’لبریشن ڈے‘ سے پہلے ہی ٹرمپ چین پر 20 فیصد ٹیرف نافذ کر چکے تھے۔

ایپل ہر سال دنیا بھر میں 22 کروڑ سے زائد آئی فون فروخت کرتا ہے۔

کاؤنٹر پوائنٹ ریسرچ کے اندازے کے مطابق امریکہ کے لیے درآمد کیے جانے والے تمام آئی فونز میں سے تقریباً پانچواں حصہ چین کی بجائے انڈیا میں تیار ہوتا ہے۔

اطلاعات کے مطابق، ایپل نے انڈیا میں اپنے آئی فون پلانٹس میں پیداوار 20 فیصد بڑھانے کا ہدف مقرر کیا۔ کمپنی یہ ہدف نئے کارکن بھرتی کر کے اور اپنے فاکس کون انڈیا فیکٹری میں اتوار کو بھی شفٹیں چلا کر حاصل کرنا چاہتی ہے۔

روئٹرز سے بات کرنے والے دو ذرائع نے تصدیق کی کہ چنئی میں واقع فاکس کون پلانٹ اتوار کو بھی کام ہوتا ہے۔ اس پلانٹ نے گذشتہ سال دو کروڑ آئی فون تیار کیے۔

ایپل واحد کمپنی نہیں جو ٹیرف کا نفاذ عارضی طور پر روکنے کے دوران امریکی میں اپنا ذخیرہ بڑھانے کی دوڑ میں شامل ہے۔ اخبار نیویارک پوسٹ کے مطابق جرمن لگژری کار ساز کمپنی پورشے نے جمعرات کو تجزیہ کاروں کو بتایا کہ اس کی پہلی سہ ماہی کی کارکردگی پر اثر پڑے گا، کیوں کہ کمپنی نے ’ 'ٹیرف ڈیڈ لائن سے بچنے کے لیے کمپنی کی زیر ملکیت زیادہ گاڑیاں امریکہ بھیج دی ہیں۔‘

پورشے نے یہ نہیں بتایا کہ آیا وہ امریکہ میں اپنی گاڑیوں کی قیمتیں بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے یا نہیں، لیکن اس کی حریف کمپنی فراری پہلے ہی واضح کر چکی ہے کہ وہ ٹیرف کے اثرات سے نمٹنے کے لیے اپنی گاڑیوں کی قیمتوں میں 10 فیصد اضافہ کرے گی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا