قصور کے علاقے چونیاں میں پولیس کے مطابق بچوں کا ریپ کر کے انھیں قتل کرنے والے ملزم سہیل شہزاد کو خود جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والا حبیب اللہ نامی شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
چونیاں ریپ اور قتل کیس میں ملوث ملزم سہیل شہزاد نے دوران تفتیش پولیس کو بتایا تھا کہ وہ گذشتہ 12 برس سے جنسی زیادتی کا شکار ہوتا رہا ہے اور اس سے زیادتی کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ اس کا تندورچی استاد ہے۔
اسی حوالے سے آر پی او سہیل حبیب تاجک نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سہیل کے اس بیان اور اس کی دی گئی معلومات سے سراغ لگاتے ہوئے انہوں نے متعلقہ علاقہ کے پولیس افسران کے ساتھ مل کر بدھ کے روز چونیاں اور قصور میں کریک ڈائون آپریشن کیا اور چونیاں کی ایک فیکٹری سے حبیب اللہ نامی شخص کو گرفتار کر لیا۔
سہیل حبیب تاجک نے بتایا کہ اس کے علاوہ بھی پولیس نے تین، چار مزید ایسے افراد کو حراست میں لیا ہے جو بچوں سے زیادتی کے کیسز میں ملوث ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے ان سے تفتیش شروع کر دی ہے جبکہ عدالت سے سہیل شہزاد کا پندرہ روزہ جسمانی ریمانڈ لے لیا گیا ہے۔
پندرہ دن کی تحقیق اور تفتیش کے بعد پولیس آخر چونیاں میں گذشتہ ڈھائی ماہ کے دوران ریپ کے بعد قتل کیے جانے والے چاروں بچوں کے قاتل تک جا پہنچی۔
ریجنل پولیس افسر سہیل حبیب تاجک نے بتایا کہ سہیل شہزاد لاہور ہائی کورٹ کی کینٹین میں تندورچی تھا اور خود بھی ایک لمبے عرصہ سے جنسی زیادتی کا نشانہ بنتا رہا تھا۔ اس سے زیادتی کرنے والا وہ شخص تھا جس کے تندور پر یہ روٹیاں لگاتا تھا۔
سہیل حبیب تاجک نے بتایا کہ ملزم کو ڈھونڈنا اتنا آسان نہیں تھا کیوں کہ اس کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے تھے اس لیے انہیں نکتہ آغاز سے کام شروع کرنا پڑا جس میں انہوں نے سب سے پہلے چونیاں کے 4 ہزار684 گھروں میں آباد 26 ہزار 251 افراد کا ڈیٹا مردم شماری کے دفتر سے حاصل کیا، 1734 ڈی این اے کے نمونے لیے، 904 رکشہ ڈرائیوروں کے پروفائلز بنائے اور 8307 موبائل فونز کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا جب کہ 3117 مشتبہ افراد سے تفتیش کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آر پی او سہیل حبیب تاجک نے بتایا کہ سہیل شہزاد 2011 میں بھی ایک پانچ سالہ بچے کے ریپ کیس میں جیل جا چکے تھا جس میں انہیں پانچ برس کی قید ہوئی مگر ڈیڑھ برس بعد ہی متاثرہ بچے کے گھر والوں نے مجرم کے گھر والوں سے صلح کر لی جس کے بعد یہ جیل سے چھوٹ گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا پولیس ریکارڈ دیکھتے ہوئے انہیں شک کی بنیاد پر لاہور سے چونیاں بلا کر ان کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا۔ ان کے ڈی این اے کا نمونہ 1471 ویں نمبر پر تھا جو سو فیصد میچ کر گیا۔ سہیل حبیب تاجک کا کہنا ہے کہ اب ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جائے گا اور ان کا ریمانڈ حاصل کیا جائے گا اور مزید تحقیق کی جائے گی کہ کیا یہ اس کام میں اکیلے تھا یا ان کے ساتھ اور لوگ بھی شامل ہیں۔
ریپ کے بعد قتل ہونے والے بچوں کے والدین سہیل شہزاد کی گرفتاری پر کیا کہتے ہیں؟
16 ستمبر کو ریپ کے بعد قتل کر دیے جانے والے فیضان کے والد امام مسجد محمد رمضان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں چین تب ملے گا جب وہ سہیل شہزاد کو پھانسی پر لٹکا دیکھیں گے۔ انہوں نے پولیس اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ ملزم پر عدالتی کیس نہ چلایا جائے اب چونکہ جرم ثابت ہو چکا ہے اور وہ خود بھی اعتراف کر چکا ہے اس لیے اسے فوری طور پر چونیاں میں سر عام پھانی دی جائے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’یہ انتظامیہ کی غفلت ہے کہ اگر وہ پہلے بھی ایسے کیس میں ملوث تھا تو اسے کیوں چھوڑا گیا اور اگر چھوڑا بھی گیا تھا تو اس پر نظر کیوں نہیں رکھی گئی اگر ایسا ہوتا تو آج میرا بیٹا اور دوسرے بچے اس اذیت ناک طریقے سے نہ مرتے۔‘
سلمان اکرم جنہیں اگست کے مہینے میں ریپ کے بعد قتل کیا گیا ان کے والد محمد اکرم نے بھی انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ’ملزم کی سرعام پھانسی کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جس جگہ ملزم نے ہمارے بچوں کو دفن کیا وہیں اسے پھانسی دی جائے اور اس کی نماز جنازہ نہ پڑھائی جائے۔ یہ بات کرتے ہوئے وہ زار و قطار رو پڑے اور بولے خدارا اس موبائل فون پر پابندی لگائی جائے جس پر کسی کو کچھ نہیں معلوم کہ ان کا بچہ یا کوئی فرد کیا کچھ دیکھ رہا ہے جس کے بعد وہ یہ سب کچھ ہمارے معصوم بچوں پر آزماتے ہیں۔‘
محلے دار سہیل شہزاد کے بارے میں کیا جانتے تھے؟
سہیل شہزاد کی گرفتاری کے بعد انڈپینڈنٹ اردو نے رانا ٹاؤن کے لوگوں سے بات چیت کی جن میں رانا ارشد ہم سے بات کرنے کو تیار ہو گئے۔ رانا ارشد نے بتایا کہ سہیل شہزاد مختلف قسم کے کام کرتے تھے۔ زیادہ تر ان کے گھر والے جن میں تین بھائی اور دو بہنیں شامل ہیں، پتھر کوٹنے کا کام کرتے ہیں۔ جب کہ سہیل شہزاد کبھی رکشہ چلاتے تھے اور کبھی تندور پر روٹیاں بھی لگایا کرتے تھے۔ یہ مستقل ایک جگہ نہیں رہتے تھے بلکہ گھر تبدیل کرتے رہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں کچھ عرصہ پہلے چونیاں کے ایک محلے سے نکالا بھی گیا تھا۔ رانا ارشد نے یہ بھی بتایا کہ سہیل شہزاد کے گھر کا ماحول بھی کچھ ٹھیک نہیں تھا وہاں کسی کے بھی ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس حوالے سے جب پولیس سے بات ہوئی تو آر پی او سہیل حبیب تاجک کا کہنا تھا کہ وہ ان باتوں پر تفتیش کر رہے ہیں، شواہد اور گواہان کی بنیاد پر ہی اس پر حتمی طور پر کوئی بات کی جا سکتی ہے۔
2011 میں بچے سے جنسی زیادتی کیس میں سہیل کو ڈیڑھ برس بعد کیوں چھوڑ دیا گیا؟
پولیس کے مطابق سہیل نے 2011 میں بھی ایک پانچ سالہ بچے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا جس میں انہیں پانچ برس قید کی سزا ہوئی مگر متاثرہ بچے کے والدین نے ان سے صلح کر لی جس کے بعد سہیل شہزاد ڈیڑھ برس بعد جیل سے رہا ہوگئے۔ ایڈووکیٹ آفتاب باجوہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان پینل کوٹ کے سیکشن 377 اے اور 377 بی میں اٹھارویں ترمیم کے بعد ترامیم کی گئی جن کے تحت بچے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والے کو 2 سے 10 برس کی قید ہو گی جبکہ 1979 میں یہ قانون مختلف تھا اس میں بچے سے زیادتی کرنے والے کے لیے موت کی سزا تھی۔ آفتاب باجوہ کا کہنا ہے کہ ایسے کیسز میں زیادہ تر دونوں پارٹیاں آپس میں صلح کر لیتی ہیں جس کی وجہ سے ملزم چھوٹ جاتے ہیں اور سہیل شہزاد کے کیس میں بھی یہی ہوا ہوگا۔
بچوں سے جنسی زیادتی کے کیسز میں اضافہ کو عوام کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
تبجیل اشرف چیمہ امریکہ کی ایم آئی ٹی یونیورسٹی کے گریجوئیٹ ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے ایک سوال اٹھایا کہ زینب کے قاتل عمران کو پھانسی دینے کا کیا فائدہ ہوا؟ ان کے خیال میں ایسی پھانسیاں رشتہ داروں کو وقتی ذہنی سکون دیتی ہیں مگر ایک معاشرے کے طور پر ہم کیا سیکھ رہے ہیں؟ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں پیڈوفیلک رویہ پروان چڑھ رہا ہے اور معاشرہ اس پر خاموش ہے۔ ان کے خیال میں یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے اور ہمارا معاشرتی تانا بانا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ہم اس نہج پر آ چکے ہیں جہاں ہمارے بچوں کا دن محفوظ گزر جانا ان کے لیے کسی بونس سے کم نہیں ہے۔ ان کے خیال میں ہمیں ان رویوں کے پیچھے کارفرما وجوہات کو ڈھونڈ کر ان کا علاج کرنا چاہیے۔
ماہر نفسیات اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟
ڈاکٹر اختر علی سید آئر لینڈ میں واٹرفورڈ کے ایک ہسپتال میں پرنسپل کلینکل سائیکالوجسٹ ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو کے رابطہ کرنے پر انہوں نے بتایا کہ قصور جیسے واقعات کو صرف جنسی رجحانات سے جوڑنا کوتاہ بینی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسے واقعات یہ بتاتے ہیں کہ انسان ہمارے معاشرے میں ایک شے یا بازاری جنس میں تبدیل ہوچکا ہے۔ قصور میں ہونے والے واقعے کے ذیل ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ بچوں کی جانب جنسی رجحان (Pedophilia) رکھنے سے زیادہ بنیادی طور پر انسانی جان کی توقیر کا مسئلہ ہے۔ یہ انسانی زندگی کو ایک شے سمجھنے کا مسئلہ ہے۔ یہ انسانی جان کو ایک ہتھیار سمجھنے اور بنانے کا مسئلہ ہے۔ یہ خودکش شدت پسندوں کی ایک فوج تیار کرنے والے اذہان کا مسئلہ ہے۔
ان کے مطابق جب تک معاشرہ انسانی جان کی حرمت پر آمادہ نہیں ہوتا، بات بات پر سیاسی اور مذہبی قائدین انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکنا بند نہیں کرتے، اس وقت تک بڑے بچوں کو ، دولت مند غریبوں کو اور بندوق والے نہتوں کو اسی طرح کے سلوک کا نشانہ بناتے رہیں گے۔