ڈونلڈ ٹرمپ کے 47ویں امریکی صدر کے طور پر حلف لینے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ایک ’پائیدار‘ پاک امریکہ شراکت داری کے لیے کام کرنے کے منتظر ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کی شب امریکہ کے 47ویں صدر کے طور پر حلف لیا تھا اور اپنے خطاب میں اپنی انتظامیہ کی ترجیحات بیان کیں جن میں قومی خود مختاری، اقتصادی ترقی اور حکومتی اصلاحات شامل ہیں۔
منگل کو وزیر اعظم شہباز شریف نے ایکس پر جاری پوسٹ میں کہا: ’گذشتہ سالوں میں ہمارے دونوں عظیم ممالک نے خطے اور اس سے باہر اپنے لوگوں کے لیے امن اور خوش حالی کے لیے مل کر کام کیا ہے اور ہم مستقبل میں بھی ایسا کرتے رہیں گے۔‘
انہوں نے ٹرمپ کو ان کے دوسرے مدت اقتدار کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے مزید لکھا کہ ’میں ان کے ساتھ مل کر پاکستان اور امریکہ کی مستحکم شراکت داری کو مضبوط کرنے کے لیے کام کرنے کا منتظر ہوں۔‘
صدر آصف علی زرداری نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکہ کے 47ویں صدر کے طور پر عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی ہے۔
ریڈیو پاکستان کے مطابق اپنے پیغام میں صدر زرداری نے نئے امریکی صدر کے لیے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
پیر کو ٹرمپ کی حلف برداری سے پہلے پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے کہا تھا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو ’مستحکم‘ کرنے کا خواہاں ہے، جن میں معیشت، تجارت، عوامی سطح کے تعلقات، سکیورٹی اور انسداد دہشت گردی میں کثیر الجہتی تعاون شامل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا: ’پاکستان-امریکہ تعلقات کی ایک بہت طویل تاریخ ہے اور یہ تعلقات بہت بھرپور اور گہرے ہیں، اور ہم نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ مل کر اس اہم تعلق کو مزید مستحکم اور مضبوط بنانے کے لیے کام کرتے رہیں گے۔‘
لیکن خارجہ امور کے بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی انتظامیہ پاکستان کو ’چین بھارت کی عینک‘ سے دیکھتی رہے گی۔
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کئی نشیب و فراز دیکھے گئے ہیں۔
پاکستان اور امریکہ نے سرد جنگ کے دوران اور نائن الیون کے حملوں کے بعد القاعدہ کے خلاف امریکہ سے تعاون کیا لیکن ان کے تعلقات مختلف مسائل پر برعکس ترجیحات کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرتے رہے۔ حالیہ برسوں میں واشنگٹن اور اسلام آباد کے تعلقات اس وقت خراب ہوئے جب امریکہ نے یہ شک ظاہر کیا کہ پاکستان 2021 میں کابل پر قبضے میں افغان طالبان کی مدد فراہم کر رہا ہے، ان الزامات کو اسلام آباد نے ہمیشہ مسترد کیا ہے۔
2022 میں کشیدگی میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان نے بائیڈن انتظامیہ پر ان کی برطرفی کا الزام لگایا۔ 2022 میں عمران خان کی معزولی کے بعد سے شہباز شریف کی مخلوط حکومت نے خراب تعلقات کو ٹھیک کرنے کی مسلسل کوششیں کی ہیں۔
پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام پر بھی دونوں ممالک کے درمیان اختلافات سامنے آئے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں امریکی نائب قومی سلامتی کے مشیر جون فائنر نے کہا تھا کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان کی طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں کی ترقی ممکنہ طور پر امریکہ کو نشانہ بنا سکتی ہے۔
یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب امریکہ نے کہا کہ وہ پاکستان کے میزائل پروگرام سے متعلق نئی پابندیاں عائد کر رہا ہے۔