افغانستان کی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ طالبان حکام کے حکم پر جمعے کو قتل کے مجرموں کو فائرنگ کر کے مار دیا گیا جس کے بعد طالبان کی واپسی کے بعد سے سرعام پھانسی کی سزا پانے والے افراد کی تعداد نو ہو گئی ہے۔
شہر میں موجود اے ایف پی صحافی کو عینی شاہدین نے بتایا کہ قلعہ نو، جو صوبہ بادغیس کا مرکز ہے، میں متاثرہ خاندان کے ایک مرد رشتہ دار نے لوگوں کے سامنے دو افراد کو چھ سے سات گولیاں ماریں۔
سپریم کورٹ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری ایک بیان میں کہا کہ تیسرے شخص کو صوبہ نیم روز کے شہر زرنج میں گولی ماری گئی۔
سپریم کورٹ نے چوتھے شخص کی صوبہ فراح کے مرکز میں واقع سپورٹس سٹیڈیم میں سزائے موت دیے جانے کی بھی تصدیق کی۔
بیان میں کہا گیا کہ ان افراد کو ’بدلے کی سزا‘ سنائی گئی کیوں کہ انہوں نے دوسرے افراد کو گولیاں ماری تھیں۔ ان کے مقدمات کا ’نہایت باریک بینی سے اور بار بار‘ جائزہ لیا گیا۔
بیان میں کہا گیا کہ ’متاثرہ خاندانوں کو معافی اور صلح کی پیشکش کی گئی لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔‘
جمعرات کو بڑے پیمانے پر شیئر کیے گئے سرکاری نوٹسز میں افغان عوام کو ’اس واقعے میں شرکت‘ کی دعوت دی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسمانی سزا، خاص طور پر کوڑے مارنے کی، طالبان حکام کے دور میں عام رہی ہے، اور اسے چوری، زنا اور شراب نوشی جیسے جرائم پر لاگو کیا جاتا ہے۔
آخری بار سزائے موت پر عمل درآمد نومبر 2024 میں کیا گیا جب قتل کے مجرم کو صوبہ پکتیا کے دارالحکومت گردیز کے ایک سٹیڈیم میں متاثرہ خاندان کے ایک فرد نے سینے پر تین گولیاں مار کر جان سے مار دیا۔ یہ سزا ہزاروں لوگوں کی نظروں کے سامنے دی گئی جن میں طالبان کے اعلیٰ عہدے دار بھی شامل تھے۔
طالبان کے پہلے دور حکومت، 1996 سے 2001 تک، سزا پر سرعام عمل درآمد عام تھا۔ زیادہ تر سزائیں کھیلوں کے سٹیڈیمز میں لوگوں کے سامنے دی جاتی تھیں۔
سزائے موت کے تمام احکامات طالبان کے منظر عام پر نہ آنے والے سپریم لیڈر، ہبت اللہ اخوندزادہ، کے دستخط سے جاری ہوتے ہیں، جو تحریک کے مرکز قندھار میں مقیم ہیں۔
2022 میں، اخوندزادہ نے ججوں کو حکم دیا کہ وہ طالبان حکومت کی اسلامی قانون کی تشریح کے تمام پہلوؤں کو مکمل طور پر نافذ کریں، جن میں ’قصاص‘ کے نام سے معروف ’آنکھ کے بدلے آنکھ‘ جیسی سزائیں بھی شامل ہیں، جو قتل کے جرم میں بدلے کے طور پر سزائے موت کی اجازت دیتی ہیں۔
ان کے پہلے دور حکومت کی ایک بدنام ترین تصویر 1999 میں کابل کے ایک سٹیڈیم میں ایک برقع پوش خاتون کو سرعام سزائے موت دینے کی تھی جن پر اپنے شوہر کو قتل کرنے کا الزام تھا۔